مباہلہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
''نحن معاشر الانبیاء لا نورث''عظمت اہل بیت کى ایک زندہ سند

خداوندعالم نے اپنے پیغمبر(ص) کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھى کوئی شخص تم سے حضرت عیسى (ع) کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے''مباھلہ''کى دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں،عورتوں اور نفسو ںکو لے آئے اور تم بھى اپنے بچوںکو عورتوں اور نفسں کو بلا لو پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے_
بغیر کہے یہ بات واضح ہے جب کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں ،اور ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے_
بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا او رنفرین عملى طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذاب میں گرفتار ہو جائے_
آیات میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا اس لئے یہ خود اس بات کى دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھى بلکہ اس کا خاجى اثر پیش نظر تھا_
مباہلہ کا مسئلہ عرب میں کبھى پیش نہیں آیا تھا،اور اس راستہ سے پیغمبر اکرم(ص) کو صدقت و ایمان کو اچھى سرح سمجھا جاسکتا تھا،کیسے ممکن ہے کہ جو شخص کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ ایسے میدان کى طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دى کہ آئو اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں،اس سے درخواست کریں اور دعا کریسیں کہ وہ جھوٹے کو رسو اکردے اور پھر یہ بھى کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ خوددیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے او رعذاب کرتا ہے_
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطرناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کى دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والى سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کى رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا_
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے _ اسى لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبراکرم(ص) کى طرف سے دعوت مباھلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ (ص) کى دعوت کى صداقت اور ایمان کى دلیل بھى ہے_
اسلامى روایات میں ہے کہ''مباھلہ''کى دعوت دى گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم(ص) کے پاس آئے اور آپ(ص) سے مہلت چاہى تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں_ مشورہ کى یہ بات ان کى نفسیاتى حالت کى چغلى کھاتى ہے_
بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایاکہ اگر محمد(ص) شور وغل،مجمع اور دادوفریادکے ساتھ''مباھلہ''کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اورمباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھى نہیں ،جب بھى شوروغل کا سہارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں،بہت قریبى خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبرہیں اور اس صورت میں اس سے ''مباھلہ''کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ہے_
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر(ص) اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لئے حسن(ع) کا ہاتھ پکڑے اور على (ع) اور فاطمہ(ع) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیں کہ جب میں دعاکروں ،تم آمین کہنا_
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھى تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار ہوگئے اور اہل ذمہ کى حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہوگئے _
 

''نحن معاشر الانبیاء لا نورث''عظمت اہل بیت کى ایک زندہ سند
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma