سب سے بڑھ کرعجیب بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ بنى اسرائیل میں یہ انحرافى تبدیلیاں صرف گنتى کے چند دنوں کے اندر واقع ہوگئیں جب موسى علیہ السلام کو میعاد گاہ کى طرف گئے ہوئے 35/دن گزر گئے تو سامرى نے اپنا کام شروع کردیا اور بنى اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام زیورات جو انہوں نے فرعونیوں سے عاریتاًلئے تھے اور ان کے غرق ہوجانے کے بعد وہ انھیں کے پاس رہ گئے تھے انہیں جمع کریں چھتیسویں ، سنتیسویں اور اڑ تیسویں دن انہیں ایک کٹھائی میں ڈالااور پگھلاکر اس سے گوسالہ کا مجسمہ بنا دیا اور انتالیسویں دن انہیں اس کى پرستش کى دعوت دى اور ایک بہت بڑى تعداد (کچھ روایات کى بناء پر چھ لاکھ افراد) نے اسے قبول کرلیااور ایک روز بعد یعنى چالیس روز گزرنے پر موسى علیہ السلام واپس آگئے _
قرآن اس طرح فرماتا ہے: ''قوم موسى نے موسى کے میقات کى طرف جانے کے بعد اپنے زیوارات وآلات سے ایک گوسالہ بنایا جو ایک بے جان جسد تھا جس میں سے گائے کى آواز آتى تھی_ (1)
اسے انہوں نے اپنے واسطے انتخاب کیا ''
اگرچہ یہ عمل سامرى سے سرزد ہوا تھا_(2)
لیکن اس کى نسبت قوم موسى کى طرف دى گئی ہے اس کى وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کام میں سامرى کى مدد کى تھى اور وہ اس کے شریک جرم تھے اس کے علاوہ ان لوگوں کى بڑى تعداد اس کے فعل پر راضى تھى _
قرانى گفتگو کاظاہر یہ ہے کہ تمام قوم موسى اس گوسالہ پرستى میں شریک تھى لیکن اگردوسرى ایت پر نظر کى جائے جس میں آیا ہے کہ :
''قوم موسى میں ایک امت تھى جو لوگوں کو حق کى ہدایت کرتى تھى اور اسى کى طرف متوجہ تھی''_(3)
اس سے معلوم ہوگا کہ اس سے مراد تمام امت موسى نہیں ہے بلکہ اس کى اکثریت اس گوسالہ پرستى کى تابع ہوگئی تھی، جیسا کہ آئندہ آنے والا ہے کہ وہ اکثریت اتنى زیادہ تھى کہ حضرت ہارون علیہ السلام مع اپنے ساتھیوں کے ان کے مقالے میں ضعیف وناتواں ہوگئے تھے
(1)سورہ اعراف آیت 148
(2)جیسا کہ سورہ طہ کى آیات میں آیاہے
(3) سورہ اعراف آیت 159