تنہاوہ جنگ جس میں حضرت على نے شرکت نہ کی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
تشویق ، سرزنش، اور دھمکى کى زبانایک عظیم درس

اس لشکر کو چونکہ اقتصادى طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھى طولانى تھا راستے میں جلانے والى زہریلى ہوائیں چلتى تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑچلتے تھے سواریاں بھى کافى نہ تھیں اس لئے یہ'' جیش العسرة'' (یعنى سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کى ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین ''تبوک'' میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت على کو اپنى جگہ پر مدینہ میں چھوڑآئے تھے یہ واحد غزوہ ہے جس میں حضرت على علیہ السلام شریک نہیں ہوئے _
رسول اللہ کایہ اقدام بہت ہى مناسب اور ضرورى تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یامنا فقین جو حیلوں بہانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان کى فوج کى طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کردیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاراج کردیں لیکن حضرت على کا مدینہ میں رہ جانا ان کى سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھى _
بہرحال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وہاں آپ کو رومى فوج کا کوئی نام ونشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنى عجیب وغریب جرا ت وشجاعت کا مظاہرہ کرچکى تھی، جب ان کے آنے کى کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچى تو انھوں نے اسى کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندرچلے جائیں اور اس طرح سے ظاہر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کى سرحدوں پر جمع ہونے کى خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھى کیونکہ وہ ایک ایسى خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھى ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتارى سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنان اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:
1_یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جہاد اس قدر قوى ہے کہ وہ اس زمانے کى نہایت طاقت ور فوج سے بھى نہیں ڈرتے_
2_ بہت سے قبائل اور اطراف تبوک کے امراء پیغمبر اسلام (ص) کى خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے کے عہدوپیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان کى طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے _
3_ اسلام کى لہریں سلطنت روم کى سرحدوں کے اندر تک چلى گئیں اور اس وقت کے ایک اہم واقعہ کے طور پر اس کى آواز ہر جگہ گونجى اور رومیوں کے اسلام کى طرف متوجہ ہونے کے لئے راستہ ہموار ہوگیا _
4_ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ہموار ہوگئی اور معلوم ہوگیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ہى ہے _
یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کشى کى زحمت برداشت کى جاسکتى تھى _
بہرحال پیغمبر اکرم (ص) نے اپنى سنت کے مطابق اپنى فوج سے مشورہ کیا کہ کیا پیش قدمى جارى رکھى جائے یاواپس پلٹ جایا جائے؟
اکثریت کى رائے یہ تھی، کہ پلٹ جانا بہتر ہے اور یہى اسلامى اصولوں کى روح سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے کى مشقت وزحمت کے باعث اسلامى فوج کے سپاہى تھکے ہوئے تھے اور ان کى جسمانى قوت مزاحمت کمزور پڑچکى تھی، رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کى طرف لوٹ آیا_

 

 

تشویق ، سرزنش، اور دھمکى کى زبانایک عظیم درس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma