مفسرین اور مو رخین نے اس داستان کو مختلف صورتوں میں نقل کیا ہے اور اس کے وقوع کے سال میں بھى اختلاف ہے لیکن اصل داستان ایسى مشہور ہے کہ یہ اخبار متواتر میں شمار ہوتى ہے اور ہم اسے مشہور روایات کے مطابق''سیرةابن ہشام ''و بلوغ الارب'' و''بحار الانوار''اور مجمع البیان سے خلاصہ کرکے نقل کرتے ہیں_
یمن کے بادشاہ''ذونواس''نے نجران کے عیسائیوں کو جو اس سرزمین کے نزدیک بستے تھے،اس لئے بہت بہت تنگ کر رکھا تھا کہ وہ اپنا دین مسیحیت چھوڑدیں_(قرآن نے اس واقعہ کو سورہ ''بروج''میں ''اصحاب الاخدود'' کے عنوان سے بیان کیا ہے_)
اس عظیم جرم کے بعد''دوس''نامى ایک شخص ان میں سے اپنى جان بچاکر نکل گیا اور وہ قیصر روم کے پاس،جو مسیحیت پر تھا جا پہنچا اور اس کے سامنے یہ سارا ماجرا بیا ن کیا_
چونکہ''روم''اور''یمن'' کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا لہذا اس نے حبشہ کے بادشاہ''نجاشی''کو خط لکھا کہ وہ''ذونواس''سے نصارائے نجران کا انتقام لے،اور اس خط کو اسى شخص کے ہاتھ''نجاشی''کے پاس روانہ کیا_
''نجاشی''نے ایک بہت بڑا لشکر چو ستر ہزار افراد سے زیادہ پر مشتمل تھا''اریاط''نامى شخص کے کمان میں یمن کى طرف روانہ کیا_''ابرہہ''بھیس لشکر کے افسروں میں سے ایک تھا_
''ذونواس''کو شکست ہوئی،اور ''اریاط''یمن کا حکمران ہوگیا_کچھ مدت کے بعد''ابرہہ''نے اریاط کے خلاف بغاوت کردى اور اس کا خاتمہ کرنے کے بعد اس کى جگہ پر بیٹھ گیا_
اس واقعہ کى خبرنجاشى کو پہنچى تو اس نے''ابرہہ'' کیسرکوبى کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا_ابرہہ نے اپنى نجات کے لئے اپنے سرکے بال منڈوا کر یمن کى کچھ مٹى کے ساتھ مکمل تسلیم کى نشانى کے طور پر نجاشى کے پاس بھیج دیے،اور وفادارى کا اعلان کیا_نجاشى نے جب یہ دیکھا تو ابرہہ کو معاف کردیا،اوراسے اس کے منصب پر برقراررکھا_