اسى واقعے کى طرف قرآن اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:''اس وقت کو یاد کرو جب اس نے وزن اور لوگوں سے بھرى ہوئی کشتى کى طرف فرار کیا''_(1)
قرآن میں ''ابق'' کا لفظ استعمال ہوا ہے _''اباق''کے مادہ سے غلام کے اپنے آقا و مولا کے پاس سے بھاگ جانے کے معنى میں ہے اس مقام پر یہ ایک عجیب و غریب تعبیر ہے_ یہ اس بات کى نشاندہی کرتى ہے کہ بہت ہى چھوٹا سا ترک اولى کہ جوعالى مقام پیغمبروں سے سرزد ہوجائے،خدا کى طرف سے کس قدر سخت گیرى اور عتاب کا باعث بنتا ہے،یہاں تک کہ وہ اپنے پیغمبر کو بھاگ جانے والے غلام کا نام دیتا ہے_
بلاشک و شبہ یونس علیہ السلام معصوم پیغمبر تھے اور وہ کبھى بھى گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے،لیکن پھر بھى بہتر یہى تھا کہ وہ تحمل سے کام لیتے اور نزول عذاب سے قبل کے آخرى لمحات تک اپنى قوم کے ساتھ رہتے کہ شاید وہ بیدار ہوجائے_
یہ ٹھیک ہے کہ بعض روایات کے مطابق آپ(ع) نے چالیس سال تک تبلیغ کى تھی،لیکن پھر بھى بہتر یہى تھاکہ چند روز یا چند گھنٹے اور ٹھہر جاتے_آپ(ع) نے چونکہ ایسا نہیں کیا لہذا آپ(ع) کو بھاگ جانے والے غلام سے تشبیہ دى گئی ہے_
(1)سورہ صافات آیت140