لیکن جس وقت آپ نے محسوس کیا کہ یہ دونوں عنقریب ان سے جدا ہو جائیں گے لہذا ہو سکتا ہے کہ ان کے ذریعے آزادى کا کو ئی در یچہ کھل جائے اور روشنى کى کوئی کرن پھو ٹے اور جس گناہ کى آپ کى طرف نسبت دى گئی تھى اس سے اپنے آپ کو بے گناہ ثا بت کریں ''آپ نے ان دو قیدى ساتھیوں میں سے جس کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ آزاد ہوں گے، اس سے فرمائشے کى کہ اپنے مالک وصاحب اختیار ( بادشاہ ) کے پاس میرے متعلق بات کرنا_ ''(1)تاکہ وہ تحقیق کرے اور میرى بے گناہى ثابت ہو جائے'' _
لیکن اس فرامو ش کا رغلام نے یوسف کا مسئلہ با لکل بھلا دیا جیسا کہ کم ظرف لوگوں کا طریقہ ہے کہ جب نعمت حاصل کر لیتے ہیں تو صاحب نعمت کو فراموش کر دیتے ہیں البتہ قرآن نے بات یوں بیان کى ہے : ''جب وہ اپنے مالک کے پاس پہنچا تو شیطان نے اس کے دل سے یوسف کى یاد بھلا دی_'' (2)
اور اس طرح یوسف فراموش کردیئے گئے ''اور چند سال مزید قید خانے میں رہے _'' ( 3)(4)
پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :مجھے اپنے بھائی یوسف پر تعجب ہو تا ہے کہ انہوں نے کیونکر خالق کے بجائے مخلوق کى پناہ لى اور اس سے مدد طلب کى _
ایک اور روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
اس واقعے کے بعد جبرئیل یوسف (ع) کے پاس آئے اور کہا : کس نے تمہیں سب لو گوں سے زیا دہ حسین بنا یا ؟ کہنے لگے : میرے پرور دگار نے _کہا : کس نے قافلے کو تمہارى طرف بھیجا تا کہ وہ تمہیں کنویں سے نجات دے ؟
بولے : میرے پرور دگار نے _
کہا : کس نے مصر کى عور توں کے مکر وفریب سے تمہیں دور رکھا ؟
کہنے لگے : میرے پر ور د گار نے _ s
اس پر جبرئیل نے کہا : تمہارا پرور دگار کہہ رہا ہے کس چیز کے سبب تم اپنى حاجت مخلوق کے پاس لے گئے ہو اور میرے پاس نہیں لائے ہو لہذاتمہیں چند سال اورزندان میں رہنا چاہئے _
(1)سورہ یوسف آیت 42
(2)سورہ یوسف آیت 42
(3)سورہ یوسف آیت 42
(4)البتہ زندان یا دیگر مشکلات سے نجات کے لئے ایسى کوشش عام افراد کے لئے کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے اور طبیعى اسباب سے کام لینے کے ضمن میں ہے لیکن ایسے افراد کے لئے جو نمونہ ہوں اور ایمان و توحید کى بلند سطح پر فائز ہوں ان کے لئے اشکال سے خالى نہیں ہو سکتى ،شاید اسى بناء پر خدا نے یوسف کے اس ''ترک اولى ''کو نظر انداز نہیں کیا اور اس کى وجہ سے ان کى قید چند سال مزید جارى رہی