جناب لوط علیہ السلام نے اس قوم کو تیس سال تک تبلیغ کی، لیکن اپنے خاندان کے سوا(اور وہ بھى بیوى کو مستثنى کر کے کیونکہ وہ مشرکین کے ساتھ ہم عقیدہ ہوگئی تھی)، اور کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا_
لیکن حضرت لوط علیہ السلام نے ان دھمکیوں کى کوئی پرواہ نہ کى اور اپنا کام جارى رکھا اور کہا :'' میں تمہارے ان کاموں کا دشمن ہوں _''(1)
یعنى میں اپنا احتجاج برابر جارى رکھوں گا ،تم جو کچھ میرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑلو ،مجھے راہ خدا اور برائیوں کے خلاف جہاد کے سلسلے میں ان دھمکیوں کى قطعا ًکوئی پرواہ نہیں ہے_
اس احتجاج میں اور بھى بہت سے لوگ جناب لوط علیہ السلام کے ہمنوا ہوچکے تھے، یہ اوربات ہے کہ سرکش قوم نے آخرکارانھیں جلاوطن کردیا _
لائق توجہ بات یہ کہ حضرت لوط علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' تمہارے اعمال کا دشمن ہوں '' یعنى مجھے تمہارى ذات سے دشمنى نہیں بلکہ تمہارے شرمناک اعمال سے نفرت ہے اگر ان اعمال کو اپنے سے دور کردو تو پھر تم میرے پکے دوست بن جاو گے _
بہرحال جناب لوط علیہ السلام کى ذمہ دارى کا آخرى مرحلہ آن پہنچا لہذا وقت آپہنچا کہ جناب لوط علیہ السلام خود کو بھى اور جو لوگ ان پر ایمان لاچکے ہیں انھیں بھى اس گناہ آلود علاقے سے باہر نکال کرلے جائیں تاکہ ہولناک عذاب اس بے حیاقوم کو اپنى لپیٹ میں لے لے _
حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ کى بارگاہ میں دست دعا بلند کرکے کہا: ''پروردگار : جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیںمجھے اور میرے خاندان کو اس سے نجات دے _''(2)
(1)سورہ شعراء آیت 167
(2)سورہ شعراء آیت 169