پھر لطف الہى ان کے شامل حال ہوا ،کیونکہ ان کا بدن بیمار اور خستہ حال اور ان کا جسم کمزور و ناتواں تھا،ساحل کى دھوپ انھیں تکلیف پہنچاتى تھى ،لہذا ان کے لئے ایک نرم و گداز اور لطیف قسم کے لباس کی ضرورت تھى تاکہ ان کے بدن کو اس کے نیچے ارام حاصل ہو ،اس مقام پر قران کہتا ہے :''ہم نے ایک کدو کى بیل اس کے اوپر اگادى ''(1) تاکہ وہ اس کے چوڑے اور مرطوب پتوں کے نیچے ارام کرے_
کہتے ہیں کہ کدو کى بیل میںاس کے علاوہ کہ اس کے پتے چوڑے اور پانى سے پر ہوتے ہیں اور اس سے اچھا کاخا سائبان بنایا جاسکتا ہے ،مکھى بھى اس کے پتوں پر نہیں بیٹھتی_
اور یونس علیہ السلام کے بدن کى جلد مچھلى کے پیٹ میں رہنے کى وجہ سے اس قدر نازک اور حساس ہو گئی تھى کہ اس پر حشرات کے بیٹھنے سے بھى تکلیف ہوتى تھی،
انھوں نے اپنے بدن کو اس کدو کى بیل کے ساتھ چھپا لیا تاکہ سورج کى تپش سے بھى مامون رہیں اور حشرات الارض سے بھى _
شاید خد ا کو یہ مطلوب ہے کہ وہ سبق جو حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلى کے پیٹ میں دیا تھا اس کى اس مرحلہ میں تکمیل کرے ،وہ سورج کى تپش اور اس کى حرارت کو اپنے بدن کى نازک جلد پر محسوس کریں ،
تاکہ ائندہ رہبر ہوتے ہوئے اپنى امت کو جہنم کى جلانے والى اگ سے نجات کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں _