یہ درست ہے کہ انسان کى عقل کے ارتقاء کا دور عام طورپر ایک خاص حد پرہوتاہے ،لیکن ہم یہ بھى جانتے ہیں کہ انسانوں میں ہمیشہ ہى بعض مستثنى افراد موجود رہے ہیں ،تو اس بات میں کونسا امر مانع ہے کہ خدا وند متعال (عقل کے ارتقاء کے ) اس دور کو بعض بندوں کے لئے کچھ مصالح کى بناء پر زیادہ مختصر کر دے اور کم اسے کم عرصہ میں اسے مکمل کر دے جیسا کہ بچوں کے لئے بولنا سیکھنے کے لئے عام طورپر دوسال کا گزرنا ضرورى ہوتا ہے جب کہ ہم جانتے ہیںکہ حضرت عیسى علیہ السلام نے بالکل ابتدائی دنوں میں بات کى ،اور وہ ایسى بات تھى جو بہت ہى پر معنى تھى اور معمول کے مطابق بڑى عمر کے افرد کے شایان شان تھی_(1)
ایک روایت میں امام جواد حضرت محمد بن على النقى علیہ السلام کے ایک صحابى سے کہ جس کانام على بن اسباط تھا منقول ہے کہ: ''میں حضرت کى خدمت میں حاضر ہوا (جب کہ اپ کا سن بہت چھوٹا تھا) میں ان کے قد و قامت میں گم ہو گیا تاکہ اسے اپنے ذہن میں بٹھا لوں اور جب میں واپس مصر لوٹ کر جاو ں تو اپنے دوستوں سے اس بات کے کم وکیف کو بیان کروں ،عین اسى وقت جب کہ میں سوچ ہى رہاتھا کہ حضرت بیٹھ گئے (گویا اپ نے میرى تمام سوچ کا مطالعہ کر لیا تھا) میرى طرف رخ کیا اور فرمایا: اے على بن اسباط خداوند متعال نے مسئلہ امامت میں جو کام کیا ہے وہ اسى کام کى طرح ہے کہ جو نبوت میں کیا ہے وہ فرماتا ہے:
(1)یہاں یہ بات واضح ہو جاتى ہے ،کہ وہ اشکال جو کچھ افراد نے شیعوں کے بعض ائمہ کے بارے میں کیا ہے ،کہ ان میں سے بعض کم عمرى میں مقام امامت پر کیسے پہنچ گئے ،درست نہیں ہے_