بنى اسرائیل سر زمین مقدس کى طرف

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
ایک یہودى کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا جوابجب کامیاب ہو جاو تو ہمیں بھى خبرکرنا

قران میںاس کے بعد سرزمین مقدس میں بنى اسرائیل کے ورود کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے:'' موسى علیہ السلام نے اپنى قوم سے کہا کہ تم سرزمین مقدس میں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے_داخل ہوجائو، اس سلسلے میں مشکلات سے نہ ڈرو، فدا کارى سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حکم سے پیٹھ پھیرى تو خسارے میں رہوگے ''_(1)
ارض مقدسہ سے کیا مراد ہے اس، اس سلسلے میں مفسرین نے بہت کچھ کہا ہے، بعض بیت المقدس کہتے ہیں کچھ اردن یا فلسطین کانام لیتے ہیں اور بعض سرزمین طور سمجھتے ہیں، لیکن بعید نہیں کہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس میں تمام مذکورہ علاقے شامل ہیں _
کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ سارا علاقہ انبیاء الہى کا گہوراہ، عظیم ادیان کے ظہور کى زمین اور طول تاریخ میں توحید، خدا پرستى اور تعلیمات انبیاء کى نشرواشاعت کا مرکزرہاہے_
لہذا اسے سرزمین مقدس کہاگیا ہے اگرچہ بعض اوقات خاص بیت المقدس کو بھى ارض مقدس کہاجاتاہے_
بنى اسرائیل نے اس حکم پر حضرت موسى علیہ السلام کو وہى جواب دیا جو ایسے موقع پر کمزور، بزدل اور جاہل لوگ دیا کرتے ہیں _
ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ تمام کامیابیاں انھیں اتفاقا ًاور معجزانہ طور پر ہى حاصل ہوجائیں یعنى لقمہ بھى کوئی اٹھاکران کے منہ میں ڈال دے وہ حضرت موسى علیہ السلام سے کہنے لگے :'' آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک جابر اور جنگجو گروہ رہتاہے جب تک وہ اسے خالى کرکے باہر نہ چلاجائے ہم تو اس علاقے میں قدم تک نہیں رکھیں گے اسى صورت میں ہم آپ کى اطاعت کریں گے اور سرزمین مقدس میں داخل ہوں گے ''_(2)
بنى اسرائیل کا یہ جواب اچھى طرح نشاندہى کرتا ہے کہ طویل فرعونى استعمارنے ان کى نسلوں پر کیسا اثر چھوڑا تھا لفظ'' لن '' جود ائمى پر دلالت کرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ سرزمین مقدس کى آزادى کے لئے مقابلے سے کس قدر خوف زدہ تھے _
چاہئے تو یہ تھا کہ بنى اسرائیل سعى وکوشش کرتے، جہادو قربانى کے جذبے سے کام اور سرزمین مقدس پر قبضہ کرلیتے اگر فرض کریں کہ سنت الہى کے برخلاف بغیر کسى اقدام کے ان کے تمام دشمن معجزانہ طور پر نابود ہوجاتے اور بغیر کوئی تکلیف اٹھائے وہ وسیع علاقے کے وارث بن جاتے تو اس کانظام چلانے اور اس کى حفاظت میں بھى ناکام رہتے بغیر زحمت سے حاصل کى ہوئی چیز کى حفاظت سے انھیں کیا سروکار ہوسکتا تھا نہ وہ اس کے لئے تیار ہوتے اور نہ اہل _
جیسا کہ تواریخ سے ظاہر ہوتا ہے آیت میں قوم جبار سے مراد قوم ''عمالقہ'' ہے یہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے یہاں تک کہ ان کى بلند قامت کے بارے میں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے اس سلسلے میں مضحکہ خیز باتیں گھڑى گئیں جن کے لئے کوئی عملى دلیل نہیں ہے _(3)
اس کے بعد قرآن کہتا ہے :''اس وقت اہل ایمان میں سے دوافراد ایسے تھے جن کے دل میں خوف خدا تھا اور اس بنا پر انھیں عظیم نعمتیں میسر تھیں ان میں استقامت وشجاعت بھى تھى ، وہ دور اندیش بھى تھے اور اجتماعى اور فوجى نقطہ نظر سے بھى بصیرت رکھتے تھے انھوں نے حضرت موسى علیہ السلام کى دفاعى تجویز کى حمایت کى اور بنى اسرائیل سے کہنے لگے : تم شہر کے دروازے سے داخل ہوجائو اور اگر تم داخل ہوگئے تو کامیاب ہوجائو گے ''_
لیکن ہر صورت میں تمہیں روح ایمان سے مدد حاصل کرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ کروتاکہ اس مقصد کو پالو _''(4)
اس بارے میں کہ یہ دو آدمى کون تھے ؟اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ'' یوشع بن نون'' اور'' کالب بن یوفنا''(''یفنہ ''بھى لکھتے ہیں ) تھے جو بنى اسرائیل کے نقیبوں میں سے تھے _


(1)سورہ مائدہ آیت21

(2)سورہ مائدہ آیت 22
(3)خصوصاً '' عوج'' کے بارے میں خرافات سے معمور ایسى کہانیاں تاریخوں میں ملتى ہیں _اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افسانے جن میں سے بعض اسلامى کتب میں بھى آگئے ہیں، دراصل بنى اسرائیل کے گھڑے ہوئے ہیں انھیں عام طورپر '' اسرائیلیات''کہا جاتا ہے اس کى دلیل یہ ہے کہ خود موجودہ توریت کے متن میں ایسے افسانے دکھائی دیتے ہیں _

(4)سورہ مائدہ آیت 23

 

 

 

ایک یہودى کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا جوابجب کامیاب ہو جاو تو ہمیں بھى خبرکرنا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma