دیدار پرودگار کى خواہش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
عظیم وعدہ گاہحضرت موسى علیہ السلام نے رویت کى خواہش کیوں کی؟

قرآن میں بنى اسرائیل کى زندگى کے بعض دیگر مناظر پیش کئے گئے ہیں_ان میں سے ایک یہ ہے کہ بنى اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسى علیہ السلام سے بڑے اصرار کے ساتھ یہ خواہش کى کہ وہ خدا کو دیکھیں گے_ اگر ان کى یہ خواہش پورى نہ ہوئی تو وہ ہر گز ایمان نہ لائیں گے_
اہل بیت علیہم السلام کے بھى موافق ہے وہ یہ ہے کہ یہ میعاد اگر چہ واقع میں چالیس راتوں کا تھا لیکن خدا نے بنى اسرائیل کى آزمائشے کرنے کے لئے پہلے موسى علیہ السلام کو تیس راتوں کى دعوت دى پھر اس کے بعد اس کى تجدید کردى تا کہ منافقین مومنین سے الگ ہوجائیں_اس سلسلے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
جس وقت حضرت موسى علیہ السلام وعدہ گاہ الہى کى طرف گئے تو انہوں نے بنى اسرائیل سے یہ کہہ رکھا تھا کہ ان کى غیبت تیس روز سے زیادہ طولانى نہ ہوگى لیکن جب خدا نے اس پر دس دنوں کا اضافہ کردیا تو بنى اسرائیل نے کہا:موسى علیہ السلام نے اپنا وعدہ توڑ دیا اس کے نتیجہ میں انہوں نے وہ کام کئے جو ہم جانتے ہیں(یعنى گوسالہ پرستى میں مبتلا ہوگئے_)
رہا یہ سوال کہ یہ چالیس روز یا چالیس راتیں،اسلامى مہینوں میں سے کونسا زمانہ تھا؟ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدت ذیقعدہ کى پہلى تاریخ سے لے کر ذى الحجہ کى دس تاریخ تک تھی_ قرآن میں چالیس راتوں کا ذکر ہے نہ کہ چالیس دنوں کا_ تو شاید اس وجہ سے ہے کہ حضرت موسى علیہ السلام کى اپنے رب سے جو مناجاتیں تھیں وہ زیادہ تر رات ہى کے وقت ہوا کرتى تھیں_
اس کے بعد ایک اور سوال سامنے آتا ہے،وہ یہ کہ حضرت موسى علیہ السلام نے کسطرح اپنے بھائی ہارون(ع) سے کہا کہ:قوم کى اصلاح کى کوشش کرنا اور مفسدوں کى پیروى نہ کرنا،جبکہ حضرت ہارون(ع) ایک نبى برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں کى پیروى کیوں کرنے لگے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ درحقیقت اس بات کى تاکید کے لئے تھا کہ حضرت ہارون(ع) کو اپنى قوم میں اپنے مقام کى اہمیت کا احساس رہے اور شاید اس طرح سے خود بنى اسرائیل کو بھى اس بات کا احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ ان کى غیبت میں حضرت ہارون(ع) کى رہنمائی کا اچھى طرح اثر لیں اور ان کا کہنا مانیں اور ان کے اوامر ور نواہی(احکامات)کو اپنے لئے سخت نہ سمجھیں،اس سے اپنى تحقیر خیال نہ کریں اور انکے سامنے اس طرح مطیع و فرمانبرداررہیں جس طرح وہ خود حضرت موسى علیہ السلام کے فرمانبردار تھے_
چنانچہ حضرت موسى علیہ السلام نے ان کے ستر آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں اپنے ہمراہ پروردگار کى میعادگاہ کى طرف لے گئے، وہاں پہنچ کر ان لوگوں کى درخواست کو خدا کى بارگاہ میں پیش کیا_ خدا کى طرف سے اس کا ایسا جواب ملا جس سے بنى اسرائیل کے لئے یہ بات اچھى طرح سے واضح ہوگئی_
ارشاد ہوتا ہے:'' جس وقت موسى ہمارى میعادگاہ میں آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے باتیں کیں تو انہوں نے کہا:اے پروردگار خود کو مجھے دکھلادے تاکہ میں تجھے دیکھ لوں''_(1)
لیکن موسى علیہ السلام نے فوراًخدا کى طرف سے یہ جواب سنا: تم ہز گز مجھے نہیں دیکھ سکتے _
لیکن پہاڑ کى حانب نظر کرو اگر وہ اپنى جگہ پر ٹھہرا رہا تب مجھے دیکھ سکو گے_
جس وقت خدا نے پہاڑ پر جلوہ کیا تو اسے فنا کردیا اور اسے زمین کے برابر کردیا_
موسى علیہ السلام نے جب یہ ہولناک منظر دیکھا تو ایسا اضطراب لاحق ہوا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑے_اور جب ہوش میں آئے تو خدا کى بارگاہ میں عرض کى پروردگاراتو منزہ ہے،میں تیرى طرف پلٹتا ہوں،اور توبہ کرتا ہوں اور میں پہلا ہوں مومنین میں سے_(2)


(1)سورہ اعراف 143
(2)سورہ اعراف آیت143

 

 

عظیم وعدہ گاہحضرت موسى علیہ السلام نے رویت کى خواہش کیوں کی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma