اس موقع پر اس عالم بزرگوار نے حضرت موسى سے آخرى بات کہى کیونکہ گزشتہ تمام واقعات کى بناء پر انہیں یقین ہوگیا تھا کہ موسى ان کے کاموں کو برداشت نہیں کرسکتے لہذا فرمایا :'' لواب تمہارے اور میرے درمیان جدائی کا وقت آگیا ہے جلد میں تمہیں ان امور کے اسرار سے آگاہ کروں گا کہ جن پر تم صبر نہ کرسکے''_(1)
حضرت موسى نے بھى اس پر کوئی اعترا ض نہ کیا کیونکہ گزشتہ واقعے میں یہى بات وہ خود تجویز کر چکے تھے یعنى خود حضرت موسى پر یہ حقیقت ثابت ہوچکى تھى کہ ان کا نباہ نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھى جدائی کى خبر موسى کے دل پر ہتھوڑے کى ضرب کى طرح لگى ایسے استاد سے جدائی کہ جس کا سینہ مخزن اسرار ہو، جس کى ہمراہى باعث برکت ہو اور جس کى ہر بات ایک درس ہو، جس کا طرز عمل الہام بخش ہو، جس کى پیشانى سے نور خدا ضوفشاں ہو اور جس کا دل علم الہى کا گنجینہ ہو ایسے رہبر سے جدائی باعث رنج وغم تھى لیکن یہ ایک ایسى تلخ حقیقت تھى جو موسى کو بہرحال قبول کرنا تھى _
مشہور مفسر''ابوالفتوح رازی'' کہتے ہیں کہ ایک روایت منقول ہے :
لوگوں نے حضرت موسى سے پوچھا: آپ کى زندگى میں سب سے بڑى مشکل کونسى تھی؟
حضرت موسى (ع) نے کہا : میں نے بہت سختیاں جھیلى ہیں (فرعون کے دور کى سختیاں اور پھر بنى اسرائیل کے دور کى مشکلات کى طرف اشارہ ہے ) لیکن کسى مشکل اور رنج نے میرے دل کو اتنا رنجور نہیں کیا جتنا حضرت خضرسے جدائی کى خبر نے _
(1)سورہ کہف آیت 78