اسمانوں میں توحید کے دلائل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
اے ابراہیم تم پر پتھر برسائوںگاتوحید کى دعوت

اس سر زنش اور ملامت کے بعد جو ابراہیم علیہ السلام بتوں کى کرتے تھے ،اور اس دعوت کے بعد جو اپ نے ازر کو بت پرستى کو ترک کرنے کے لئے کى تھى یہاںخدا ابراہیم علیہ السلام کے بت پرستوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ منطقى مقابلوں کى طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے واضح عقلى استدلالات کے مجھے کبھى زمانہ جاہلیت کى آلود گیوں اور گندگیوں میں آلودہ نہیں کیا ''_
اس میں شک نہیں ہے کہ زمانہ جاہلیت کى واضح ترین آلودگى شرک وبت پرستى ہے اور جنہوں نے اسے آلودگى کوزنا میں منحصر سمجھا ہے ان کے پاس اپنے قول پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے خصوصا جبکہ قرآن کہتا ہے: ''مشرکین گندگى میں آلودہ اور ناپاک ہیں''_(سورہ توبہ ایت 28)
طبرى جوعلماے اہل سنت میںسے ہے اپنى تفسیر جامع البیان میں مشہور مجاہد سے نقل کرتا ہے _وہ صراحت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ازر ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں تھا_
اہل سنت کا ایک دوسرا مفسر الوسى اپنى تفسیر روح المعانى میں مندرجہ ذیل قرآنى گفتگو میں کہتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ ازر، ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں تھا شیعوں سے مخصوص ہے ان کى کم اطلاعى کى وجہ سے ہے کیونکہ بہت سے علماء (اہل سنت) بھى اسى بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ازر ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا_
''
سیوطی''مشہور سنى عالم کتاب ''مسالک الحنفاء'' میں فخر الدین رازى کى کتاب ''اسرارالتنزیل''سے نقل کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے ماں باپ اور اجداد کبھى بھى مشرک نہیں تھے اور اس حدیث سے جو ہم اوپر پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کر چکے ہیں استدلال کیا ہے ،اس کے بعد سیوطى خود اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ہم اس حقیقت کو دوطرح کى اسلامى روایات سے ثابت کر سکتے ہیں :
پہلى قسم کى روایات تو وہ ہیں کہ جو یہ کہتى ہیں کہ پیغمبر کے اباء واجداد حضرت ادم علیہ السلام تک ہر ایک اپنے زمانہ کا بہترین فرد تھا (ان احادیث کو''صحیح بخاری''اور ''
دلائل النبوة''سے بیہقى وغیرہ نے نقل کیا ہے)_
اور دوسرى قسم کى روایات وہ ہیں جو یہ کہتى ہیں کہ ہر زمانے میں موحد و خدا پرست افراد موجود رہے ہیں ،ان دونوں قسم کى روایت کو باہم ملانے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اجداد پیغمبر (ص) کہ جن میں سے ایک ابراہیم (ع) کے باپ بھى ہیں یقناً موحد تھے.
طریق سے اصل توحید کو ثابت کر نے کى کیفیت بیان کرتا ہے _
قرآن پہلے کہتا ہے :''جس طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو بت پرستى کے نقصانات سے اگاہ کیا اسى طرح ہم نے اس کے لئے تمام اسمانوں اور زمین پر پرودگار کى مالکیت مطلقہ اور تسلط کى نشاندہى کی''_(1)
اس میں شک نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام خدا کى یگانگیت کا استدلال و فطرى یقین رکھتے تھے،لیکن اسرار آفرینش کے مطالعہ سے یہ یقین درجہ کمال کو پہنچ گیا ،جیسا کہ وہ قیامت اور معاد کا یقین رکھتے تھے ،لیکن سربریدہ پرندوں کے زندہ کرنے کے مشاہدہ سے ان کاایمان''
عین الیقین''کے مرحلہ کو پہنچ گیا _
اس کے بعد میں اس موضوع کو تفصیلى طور پر بیان کیا ہے جو ستاروں اور افتاب کے طلوع و غروب سے ابراہیم علیہ السلام کے استدلال کو ان کے خدا نہ ہونے پر واضح کرتا ہے _
پہلے ارشاد ہوتا ہے:''جب رات کے تاریک پردے نے سارے عالم کو چھپا لیا تو ان کى آنکھوں کے سامنے ایک ستارہ ظاہر ہوا ،ابراہیم علیہ السلام نے پکا ر کر کہا کہ کیا یہ میرا خدا ہے ؟لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو انھوں نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ میں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انھیں عبودیت و ربوبیت کے لائق نہیں سمجھتا''_(2)
انھوں نے دوبارہ اپنى انکھیں صفحہ اسمان پر گاڑدیں ،اس دفعہ چاند کى چاندى جیسى ٹکیہ وسیع اور دل پذیر روشنى کے ساتھ صفحہ اسمان پر ظاہر ہوئی،جب چاند کو دیکھا تو ابراہیم علیہ السلام نے پکار کر کہا کہ کیا یہ ہے میرا پروردگار ؟لیکن اخر کار چاند کا انجام بھى اس ستارے جیسا ہى ہوااور اس نے بھى اپنا چہرہ پر دہ افق میں چھپا لیا ،تو حقیقت کے متلاشى ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اگر میرا پروردگار مجھے اپنى طرف رہنمائی نہ کرے تو میں گمراہوں کى صف میں جا کھڑا ہو ں گا_(3)
اس وقت رات اخر کو پہنچ چکى تھى اور اپنے تاریک پردوں کو سمیٹ کر اسمان کے منظر سے بھاگ رہى تھى ،افتاب نے افق مشرق سے سر نکالا اور اپنى زیبا اور لطیف نور کو زر بفت کے ایک ٹکڑے کى طرح دشت و کوہ و بیابان پر پھیلا دیا،جس وقت ابراہیم علیہ السلام کى حقیقت بین نظر اس کے خیرہ کرنے والے نور پر پڑى تو پکار کر کہا :کیا میرا خدا یہ ہے ؟جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن ہے ،لیکن سورج کے غروب ہوجانے اور افتاب کى ٹکیہ کے ہیولائے شب کے منہ میں چلے جانے سے ابراہیم علیہ السلام نے اپنى اخرى بات ادا کى ،اور کہا:''اے گروہ(قوم)میں ان تمام بناوٹى معبودوں سے جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے لیا ہے برى و بیزار ہوں ''_(4)
اب جبکہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس متغیر و محدود اور قوانین طبیعت کے چنگل میں اسیر مخلوقات کے ماوراء ایک ایسا خدا ہے کہ جو اس سارے نظام کائنات پر قادر و حاکم ہے،'' تو میں تو اپنا رخ ایسى ذات کى طرف کرتا ہوں کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس عقیدے میں کم سے کم شرک کو بھى راہ نہیں دیتا،میں تو موحد خالص ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں''_(5)(6)



(1)سورہ انعام ایت 76
(2)سورہ انعام ایت 76
(3)سورہ انعام ایت 77

(4)سورہ انعام ایت 78
(5)سورہ انعام آیت79
(6)جناب ابراہیم علیہ السلام جیسے موحد و یکتا پرست نے کس طرح اسمان کے ستارے کى طرف اشارہ کیا اور یہ کہا کہ یہ میرا خدا ہے مفسرین نے بہت بحث کى ہے ،ان تمام تفاسیر میں سے دو تفسیر یں زیادہ قابل ملاحظہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کو بعض بزرگ مفسرین نے اختیا ر کیا ہے ہم ان میں سے ایک کو بیا ن کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات ستارہ پرستوں اور سور ج پرست لوگوںسے گفتگو کرتے ہوئے کى اور احتمال یہ ہے کہ بابل میں بت پرستوںکے ساتھ سخت قسم کے مقابلے اور مبارزات کرنے اور اس زمین سے شام کى طرف نکلنے کے بعد جب ان اقوام سے ان کا سامنا ہوا تو اس وقت یہ گفتگو کى تھى ،حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل میں نادان قوموں کى ہٹ دھرمى کو ان کى غلط راہ ورسم میں ازما چکے تھے لہذا اس بنا پر کہ افتاب و ماہتاب کے پجاریوں اور ستارہ پرستوں کو اپنى طرف متوجہ کریں ،پہلے ان کے ہم صدا ہو گئے اور ستارہ پرستوں سے کہنے لگے کہ تم یہ کہتے ہو کہ یہ زہرہ ستارہ میرا پروردگار ہے ،بہت اچھا چلو اسے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ اس عقیدے کا انجام تمہارے سامنے پیش کروں ،تھوڑى ہى دیر گزرى تھى کہ اس ستارے کا چمکدار چہرہ افق کے تاریک پردے کے پیچھے چھپ گیا،یہ وہ مقام تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک محکم ہتھیار اگیا اور وہ کہنے لگے میں تو کبھى ایسے معبود کو قبول نہیں کر سکتا ،اس بنا پر''ھذاربی'' کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے عقیدے کے مطابق یہ میرا خدا ہے ،یا یہ کہ اپ نے بطور استفہام فرمایا: ''کیا یہ میرا خدا ہے ''؟
ستارہ سے کون سا ستارہ مراد ہے ؟اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن زیادہ تر مفسرین نے زہرہ یا مشترى کا ذکر کیا ہے اور کچھ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں ان دونوں ستاروں کى پرستش کى جایا کرتى تھى اورخداو ںکے حصہ شمار ہوتے تھے لیکن اس حدیث میں جو امام على بن موسى رضا علیہ السلام سے عیون الااخبار میں نقل ہوئی ہے یہ تصریح ہوئی ہے کہ یہ زہرہ ستارہ تھا ،تفسیر على بن ابراہیم میں بھى امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہى بات مروى ہے _

 

 

اے ابراہیم تم پر پتھر برسائوںگاتوحید کى دعوت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma