مختلف اور پیہم بلائوں کا نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
بیدار کرنے والى سزائیںبار بار کى عہد شکنیاں

قرآن میں ان بیدار کنندہ درسوں کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ہے جو خدا نے قوم فرعون کو دیئے جب مرحلہ اول یعنى قحط، خشک سالى اور مالى نقصانات نے ان کو بیدار نہ کیا تو دوسرے مرحلہ کى نوبت پہنچى جو پہلے مرحلہ سے شدید تر تھا اس مرتبہ خدا نے ان کو پے درپے ایسى بلائوںمیں جکڑا جو ان کو اچھى طرح سے کچلنے والى تھیں مگر افسوس ان کى اب بھى آنکھیں نہ کھلیں _
پہلے ان بلائوں کے نزول کے مقدمہ کے طور پر فرمایا گیا ہے : انہوں نے موسى کى دعوت کے مقابلے میں اپنے عناد کو بدستور باقى رکھا اور ''کہا کہ تم ہر چند ہمارے لئے نشانیاں لائو اوران کے ذریعے ہم پر اپنا جادو کرو ہم کسى طرح بھى تم پر ایمان نہیں لائیں گے''_ (1)
لفظ''آیت '' شاید انہوں نے ازراہ تمسخر استعمال کیا تھا ، کیونکہ حضرت موسى نے اپنے معجزات کو آیات الہى قرار دیا تھا لیکن انہوں نے سحر قرار دیا_
آیات کا لہجہ اور دیگر قرائن اس بات کے مظہر ہیں کہ فرعون کے پروپیگنڈوں کا محکمہ جو اپنے زمانے کے لحاظ سے ہر طرح کے سازو سامان سے لیس تھا وہ حضرت موسى کے خلاف ہر طرف سے حرکت میں آگیا تھا اس کے نتیجے میں تمام لوگوں کا ایک ہى نعرہ تھا اور وہ یہ کہ اے موسى تم تو ایک زبردست جادو گر ہو ، کیونکہ موسى کى بات کو رد کرنے کا ان کے پاس اس سے بہتر کوئی جواب نہ تھا جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وہ گھربنانا چاہتے تھے _
لیکن چونکہ خدا کسى قوم پر اس وقت تک اپنا آخرى عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ اس پر خوب اچھى طرح سے اتمام حجت نہ کرلے اس لئے بعد والى آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے پہلے طرح طرح کى بلائیں ان پر نازل کیں کہ شاید ان کو ہوش آجائے _(2)
''پہلے ہم نے ان پر طوفان بھیجا''
اس کے بعد قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
''اس کے بعد ہم نے ان کى زراعتوں اور درختوں پر ٹڈیوں کو مسلط کردیا_''
روایات میں وارد ہوا ہے کہ کہ اللہ نے ان پر ٹڈیاں اس کثرت سے بھیجیں کہ انھوں نے درختوں کے شاخ و برگ کا بالکل صفایا کردیا، حتى کہ ان کے بدنوں تک کو وہ اتنا آزار پہنچاتى تھیں کہ وہ تکلیف سے چیختے چلاتے تھے_
جب بھى ان پر بلا نازل ہوتى تھى تو وہ حضرت موسى علیہ السلام سے فریاد کرتے تھے کہ وہ خدا سے کہہ کر اس بلا کو ہٹوادیں طوفان اور ٹڈیوں کے موقع پر بھى انھوں نے جناب موسى علیہ السلام سے یہى خواہش کى ، جس کو موسى علیہ السلام نے قبول کرلیا اور یہ دونوں بلائیں برطرف ہوگئیں، لیکن اس کے بعد پھر وہ اپنى ضد پر اتر آئے جس کے نتیجے میں تیسرى بلا ''قمّل '' کى ان پر نازل ہوئی_
''قمّل'' سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان گفتگو ہوئی ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ایک قسم کى نباتى آفت تھى جو زراعت کو کھاجاتى تھی_
جب یہ آفت بھى ختم ہوئی اور وہ پھر بھى ایمان نہ لائے،تو اللہ نے مینڈک کى نسل کو اس قدر فروغ دیا کہ مینڈک ایک نئی بلا کى صورت میں ان کى زندگى میں اخل ہوگئے_
جدھر دیکھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مینڈک نظر آتے تھے یہاں تک کہ گھروں کے اندر، کمروں میں، بچھونوں میں، دسترخوان پر کھانے کے برتنوں میں مینڈک ہى مینڈک تھے، جس کى وجہ سے ان کى زندگى حرام ہوگئی تھی، لیکن پھر بھى انھوں نے حق کے سامنے اپنا سرنہ جھکایا اور ایمان نہ لائے_ اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط کیا_
بعض مفسرین نے کہا کہ خون سے مراد ''مرض نکسیر'' ہے جو ایک وبا کى صورت میں ان میں پھیل گیا، لیکن بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ دریائے نیل لہو رنگ ہوگیا اتنا کہ اس کا پانى مصرف کے لائق نہ رہا_
آخر میں قرآن فرماتا ہے: '' ان معجزوں اور کھلى نشانیوں کو جو موسى کى حقانیت پر دلالت کرتى تھیں،ہم نے ان کو دکھلایا لیکن انھوں نے ان کے مقابلہ میں تکبر سے کام لیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ ایک مجرم او رگناہگار قوم تھے_''(3)
بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک بلا ایک ایک سال کے لئے آتى تھى یعنى ایک سال طوفان و سیلاب، دوسرے سال ٹڈیوں کے دَل، تیسرے سال نباتاتى آفت، اسى طرح آخر تک، لیکن دیگر روایات میں ہے کہ ایک آفت سے دوسرى آفت تک ایک مہینہ سے زیادہ فاصلہ نہ تھا، بہر کیف اس میںشک نہیں کہ ان آفتوں کے درمیان فاصلہ موجود تھا( جیسا کہ قرآن نے لفظ ''مفصلات'' سے تعبیر کیا ہے)تاکہ ان کو تفکر کے لئے کافى موقع مل جائے_
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ بلائیں صرف فرعون اور فرعون والوں کے دامن گیر ہوتى تھیں، بنی اسرائیل اس سے محفوظ تھے، بے شک یہ اعجاز ہى تھا ،لیکن اگر نکتہ ذیل پر نظر کى جائے تو ان میں سے بعض کى علمى توجیہہ بھى کى جاسکتى ہے_
ہمیں معلوم ہے کہ مصر جیسى سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دریائے نیل کے کناروں پر آباد تھى اس کے بہترین حصے وہ تھے جو دریاسے قریب تھے وہاں پانى بھى فراوان تھا اور زراعت بھى خوب ہوتى تھى ،تجارتى کشتیاں وغیرہ بھى دستیاب تھیں، یہ خطے فرعون والوں اور قبطیوں کے قبضے میں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا رکھے تھے اس کے بر خلاف اسرائیلوں کو دور دراز کے خشک اور کم آب علاقے دئے گئے تھے جہاں وہ زندگى کے یہ سخت دن گذارتے تھے کیونکہ ان کى حیثیت غلاموں جیسى تھی_
بنا بر این یہ ایک طبیعى امر ہے کہ جب سیلاب اور طوفان آیا تو اس کے نتیجے میں وہ آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں جو دریائے نیل کے دونوں کناروں پر آباد تھیں، اسى طرح مینڈھک بھى پانى سے پیدا ہوتے ہیں جو قبطیوں کے گھروں کے آس پاس بڑى مقدار میں موجود تھے، یہى حال خون کا ہے کیونکہ رود نیل کا پانى خون ہو گیا تھا، ٹڈیاں اور زرعى آفتیں بھى باغات، کھیتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ کرتى ہیں، لہذا ان عذابوں سے زیادہ تر نقصان قبطیوں ہى کا ہوتا تھا_
جو کچھ قرآن میں ذکر ہوا ہے اس کا ذکر موجودہ توریت میں بھى ملتا ہے، لیکن کسى حد تک فرق کے ساتھ_(4)


(1)سورہ اعراف آیت 132

(2) سورہ اعراف کى ایت 133 میں ان بلاو ں کا نام لیا گیا ہے

(3) سورہ اعراف آیت 133

(4)ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دہم توریت

 

 

 

بیدار کرنے والى سزائیںبار بار کى عہد شکنیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma