جادو گروں کا عجیب وغریب منظر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
ہر طرف سے جادو گر پہنچ گئے کیا میرى اجازت کے بغیر موسى علیہ السلام پر ایمان لے آئے؟

جب جادوگروں نے فرعون کے ساتھ اپنى بات پکى کرلى اور اس نے بھى انعام، اجرت اور اپنى بارگاہ کے مقرب ہونے کا وعدہ کرکے انھیں خوش کردیا اور وہ بھى مطمئن ہوگئے تواپنے فن کے مظاہرے اور اس کے اسباب کى فراہمى کے لئے تگ ودوکرنى شروع کردی، فرصت کے ان لمحات میں انھوں نے بہت سى رسیاں اور لاٹھیاں اکٹھى کرلیں اور بظاہر ان کے اندر کو کھوکھلاکر کے ان میں ایسا کوئی کیمیکل مواد (پارہ وغیرہ کى مانند)بھر دیا جس سے وہ سورج کى تپش میں ہلکى ہوکر بھاگنے لگتى _
آخرکاروعدے کا دن پہنچ گیا اور لوگوں کا اکثیر مجمع میدان میں جمع ہوگیا تاکہ وہ اس تاریخى مقابلے کو دیکھ سکیں ،فرعون اور اس کے درباری، جادوگر اور موسى علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام سب میدان میں پہنچ گئے _
لیکن حسب معمول قرآن مجید اس بحث کو خدف کرکے اصل بات کو بیان کرتا ہے _
یہاں پر بھى اس تاریخ ساز منظر کى تصویر کشى کرتے ہوئے کہتا ہے :''موسى نے جادو گروں کى طرف منہ کرکے کہا :جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو پھینکو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے میدان میں لے آئو ''_(1)
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب موسى علیہ السلام نے یہ بات اس وقت کى جب جادوگروں نے ان سے کہا:'' آپ پیش قدم ہوکر اپنى چیز ڈالیں گے یا ہم ؟''(2)
موسى علیہ السلام کى یہ پیش کش درحقیقت انھیں اپنى کامیابى پر یقین کى وجہ سے تھى اوراس بات کى مظہر تھى کہ فرعون کے زبردست حامیوں اور دشمن کے انبوہ کثیر سے وہ ذرہ برابر بھى خائف نہیں ،چنانچہ یہ پیش کش کرکے آپ نے جادوگروں پر سب سے پہلا کامیاب وار کیا جس سے جادو گروں کو بھى معلوم ہوگیا کہ موسى علیہ السلام ایک خاص نفسیاتى سکون سے بہرہ مند ہیں اور وہ کسى ذات خاص سے لولگائے ہوئے ہیں کہ جوان کا حوصلہ بڑھارہى ہے _
جادو گر تو غرور ونخوت کے سمندر میں غرق تھے انھوں نے اپنى انتہائی کوششیں اس کام کے لئے صرف کردى تھیں اور انھیںاپنى کامیابى کا بھى یقین تھا'' لہذانھوں نے اپنى رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور کہافرعون کى عزت کى قسم ہم یقینا کامیاب ہیں ''_(3)
جى ہاں :انھوں نے دوسرے تمام چاپلوسیوں خوشامدیوں کى مانند فرعون کے نام سے شروع کیا اور اس کے کھوکھلے اقتدار کا سہارالیا _
جیسا کہ قرآن مجید ایک اور مقام پر کہتا ہے : '' اس موقع پر انھوں نے جب رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیںتو وہ چھوٹے بڑے سانپوں کى طرح زمین پر حرکت کرنے لگیں''_ (4)
انھوں نے اپنے جادو کے ذرائع میں سے لاٹھیوں کا انتخاب کیا ہوا تھا تاکہ وہ بزعم خود موسى کى عصا کى برابرى کرسکیں اور مزید برترى کے لئے رسیوں کو بھى ساتھ شامل کرلیا تھا _
اسى دوران میں حاضرین میں خوشى کى لہر دوڑگئی اور فرعون اور اس کے درباریوں کى آنکھیں خوشى کے مارے چمک اٹھیں اور وہ مارے خوشى کے پھولے نہیں سماتے تھے یہ منظر دیکھ کر ان کے اندر وجدو سرور کى کیفیت پیدا ہوگئی اور وہ جھوم رہے تھے _ چنانچہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق ان ساحروں کى تعداد کئی ہزار تھى نیز ان کے وسائل سحر بھى ہزاروں کى تعداد میں تھے چونکہ اس زمانے میں مصر میں سحرو ساحرى کا کافى زور تھا اس بناپر اس بات پر کوئی جائے تعجب نہیں ہے _
خصوصاً جیسا کہ قران (5)کہتا ہے کہ : وہ منظر اتنا عظیم ووحشتناک تھا کہ حضرت موسى نے بھى اس کى وجہ سے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا _
اگرچہ نہج البلاغہ میں اس کى صراحت موجود ہے کہ حضرت موسى کو اس بات کا خوف لاحق ہو گیا تھا کہ ان جادوگروں کو دیکھ کر لوگ اس قدر متاثر نہ ہوجائیں کہ ان کو حق کى طرف متوجہ کرنا دشوار ہوجائے بہرصورت یہ تمام باتیں اس بات کى مظہر ہیں کہ اس وقت ایک عظیم معرکہ درپیش تھا جسے حضرت موسى علیہ السلام کو بفضل الہى سرکرنا تھا_
جادو گروں کے دل میں ایمان کى چمکلیکن موسى علیہ السلام نے اس کیفیت کو زیادہ دیر نہیں پنپنے دیا وہ آگے بڑھے اور اپنے عصا کو زمین پردے مارا تو وہ اچانک ایک ادہے کى شکل میں بتدیل ہوکر جادو گروں کے ان کر شموں کو جلدى نگلنے لگا اور انھیں ایک ایک کرکے کھاگیا _(6)(7)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصا کا ازدہا بن جانا ایک بیّن معجزہ ہے جس کى توجیہ مادى اصول سے نہیں کى جاسکتی، بلکہ ایک خدا پرست شخص کو اس سے کوئی تعجب بھى نہ ہوگا کیونکہ وہ خدا کو قادر مطلق اور سارے عالم کے قوانین کو ارادہ الہى کے تابع سمجھتا ہے لہذا اس کے نزدیک یہ کوئی بڑى بات نہیں کہ لکڑى کا ایک ٹکڑا حیوان کى صورت اختیار کرلے کیونکہ ایک مافوق طبیعت قدرت کے زیر اثر ایسا ہوناعین ممکن ہے _
ساتھ ہى یہ بات بھى نہ بھولنا چاہئے کہ اس جہان طبیعت میں تمام حیوانات کى خلقت خاک سے ہوئی ہے نیز لکڑى و نباتات کى خلقت بھى خاک سے ہوئی ہے لیکن مٹى سے ایک بڑا سانپ بننے کے لئے عادتاًشاید کروڑوں سال کى مدت درکار ہے،لیکن اعجاز کے ذریعے یہ طولانى مدت اس قدر کوتاہ ہوگئی کہ وہ تمام انقلابات ایک لحظہ میں طے ہوگئے جن کى بنا پر مٹى سے سانپ بنتا ہے ،جس کى وجہ سے لکڑى کا ایک ٹکڑا جو قوانین طبیعت کے زیر اثر ایک طولانى مدت میں سانپ بنتا،چند لحظوں میں یہ شکل اختیار کرگیا_
اس مقام پر کچھ ایسے افراد بھى ہیں جو تمام معجزات انبیاء کى طبیعى اور مادى توجیہات کرتے ہیں جس سے ان کے اعجازى پہلوں کى نفى ہوتى ہے،اور ان کى یہ سعى ہوتى ہے کہ تمام معجزات کو معمول کے مسائل کى شکل میں ظاہر کریں،ہر چند وہ کتب آسمانى کى نص اور الفاظ صریحہ کے خلاف ہو،ایسے لوگوں سے ہمارا یہ سوال ہے کہ وہ اپنى پوزیشن اچھى طرح سے واضح کریں_کیا وہ واقعاً خدا کى عظیم قدرت پر ایمان رکھتے ہیںاور اسے قوانین طبیعت پر حاکم مانتے ہیں کہ نہیں؟ اگر وہ خدا کو قادر و توانا نہیں سمجھتے توان سے انبیاء کے حالات اور ان کے معجزات کى بات کرنا بالکل بے کار ہے اور اگر وہ خدا کو قادر جانتے ہیں تو پھر ذرا تا مل کریں کہ ان تکلف آمیز توجیہوں کى کیا ضرورت ہے جو سراسر آیات قرآنى کے خلاف ہیں (اگر چہ زیر بجث آیت میں میرى نظر سے نہیں گزرا کہ کسى مفسر نے جس کا طریقہ تفسیر کیسا ہى مختلف کیوںنہ ہو اس آیت کى مادى توجیہہ کى ہو،تا ہم جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ ایک قاعدہ کلى کے طور پر تھا_
اس موقع پر لوگوں پر یکدم سکوت طارى ہوگیا حاضرین پر سناٹا چھاگیا،تعجب کى وجہ سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے آنکھیں پتھرا گئی گویا ان میں جان ہى نہیں رہى لیکن بہت جلد تعجب کے بجائے وحشت ناک چیخ و پکار شروع ہوگئی،کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے کچھ لوگ نتیجے کے انتظار میں رک گئے اور کچھ لوگ بے مقصد نعرے لگارہے تھے لیکن جادوگرں کے منہ تعجب کى وجہ سے کھلے ہوئے تھے_
اس مرحلے پر سب کچھ تبدیل ہوگیا جو جادوگر اس وقت تک شیطانى رستے پر گامزن ،فرعون کے ہم رکاب اور موسى علیہ السلام کے مخالف تھے یک دم اپنے آپے میں آگئے اور کیونکہ جادو کے ہر قسم کے ٹونے ٹوٹکے او رمہارت اور فن سے واقف تھے اس لئے انھیں یقین آگیا کہ ایسا کام ہر گز جادو نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ خدا کا ایک عظیم معجزہ ہے ''لہذا اچانک وہ سارے کے سارے سجدے میں گر پڑے ''_(8)
دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن نے یہاں پر ''القی''کا استعمال کیا ہے جس کا معنى ہے گرادیئے گئے یہ اس بات کى طرف اشارہ ہے کہ وہ جناب موسى علیہ السلام کے معجزے سے اس قدر متا ثر ہوچکے تھے کہ بے اختیار زمین پر سجدے میں جاپڑے _
اس عمل کے ساتھ ساتھ جو ان کے ایمان کى روشن دلیل تھا ;انھوں نے زبان سے بھى کہا:''ہم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے''_(9)
اور ہر قسم کا ابہام وشک دور کرنے کے لئے انھوں نے ایک اور جملے کابھى اضافہ کیا تاکہ فرعون کے لئے کسى قسم کى تاویل باقى نہ رہے،انھوں نے کہا:''موسى اور ہارون کے رب پر'' _(10)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عصازمین پر مارنے اور ساحرین کے ساتھ گفتگو کرنے کا کام اگرچہ موسى علیہ السلام نے انجام دیا لیکن ان کے بھائی ہارون علیہ السلام ان کے ساتھ ساتھ ان کى حمایت اور مدد کررہے تھے_
یہ عجیب وغریب تبدیلى جادوگروں کے دل میں پیدا ہوگئی اور انھوں نے ایک مختصر سے عرصے میں مطلق تاریکى سے نکل کر روشنى اور نور میں قدم رکھ دیا اور جن جن مفادات کا فرعون نے ان سے وعدہ کیا تھا ان سب کو ٹھکرادیا ،یہ بات تو آسان تھی، انھوں نے اس اقدام سے اپنى جانوں کو بھى خطرے میں ڈال دیا،یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے پاس علم و دانش تھا جس کے باعث وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے میں کامیاب ہوگئے اور حق کا دامن تھام لیا_


(1)سورہ شعراء آیت 43
(2)سورہ اعراف آیت115
(3)سورہ شعراء آیت44

(4)سورہ طہ آیت 66
(5) سورہ طہ اایت 67

(6)سورہ طہ ، آیت66
(7)کیا عصاکا ادھابن جانا ممکن ہے ؟

(8)سورہ شعراء آیت 46
(9)سورہ شعراء آیت47
(10)سورہ شعراء آیت 48

 

ہر طرف سے جادو گر پہنچ گئے کیا میرى اجازت کے بغیر موسى علیہ السلام پر ایمان لے آئے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma