اخر کار باپ راضى ہو گیا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
جناب یوسف (ع) نے اپنے بھا ئیوں سے ایک پیشکش کیایک دروازے سے داخل نہ ہو نا

حضرت یو سف(ع) کے بھا ئی ما لامال ہو کر خو شى خو شى کنعان واپس ائے لیکن ایند ہ کى فکر تھى کہ اگر باپ چھو ٹے بھا ئی ( بنیا مین ) کو بھیجنے پر راضى نہ ہوئے تو عزیز مصر ان کى پذیرائی نہیں کرے گا اور انہیں غلے کا حصہ نہیں دے گا _ اسى لئے قران کہتا ہے : ''جب وہ باپ کے پاس لوٹ کر ائے تو انہوں نے کہا : ابا جان حکم دیا گیا ہے کہ ایندہ ہمیں غلے کا حصہ نہ دیا جائے اور پیمانہ ہم سے روک دیا جا ئے،
'' اب جب یہ صورت در پیش ہے تو ہمارے بھا ئی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں تا کہ ہم پیمانہ حاصل کرسکیں ،''اور اپ مطمئن رہیں ہم اس کى حفا ظت کر یں گے'' _(1)
باپ کہ جو یو سف کو ہر گز نہیں بھو لتا تھا یہ بات سن کر پریشا ن ہو گیا ،ان کى طرف رخ کر کے اس نے کہا :'' کیا میں تم پر اس بھا ئی کے بارے میں بھروسہ کر لوں جب کہ اس کے بھائی یو سف کے بارے میں گزشتہ زمانے میں تم پر بھروسہ کیا تھا ''(2)
اپنے والد کو اپنے حالات سے اگاہ کر تے اور انہیں شدید غم سے نجات دلاتے ؟
بہت سے مفسر ین نے مثلاً طبرسى نے مجمع البیان میں ، علامہ طباطبائی نے المیزان میں اور قرطبى نے الجامع الا حکام القران میں اس سوال کا جواب دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی جوابات پیش کئے ہیں ان میں سے زیادہ بہتر یہ نظر اتا ہے کہ حضرت یوسف کو خدا تعالى کى طرف سے اس کى اجازت نہ تھى کیو نکہ فراق یو سف دیگر پہلوئوں کے علاوہ یعقوب کے لئے بھى ایک امتحان بھى تھا،اور ضرورى تھا کہ آزمائشے کى یہ دور فرمان الہى سے ختم ہوتا،اور اس سے پہلے حضرت یوسف(ع) خبردینے کے مجا ز نہ تھے _
اس کے علاوہ اگر حضرت یو سف فوراً ہى اپنے بھا ئیوں کو اپنا تعارف کرو ادیتے تو ممکن تھا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہو تا اور ہو سکتا تھا کہ وہ اس سے ایسے وحشت زدہ ہو تے کہ پھر لوٹ کر اپ کے پاس نہ اتے کیونکہ انہیں یہ خیال پیدا ہو تا کہ ممکن ہے یوسف ان کے گزشتہ رویہ کا انتقام لیں یعنى جب تمہارا ایسا برا ما ضى ہے جو بھولنے کے قابل نہیں تو تم کس طرح تو قع رکھتے ہو کہ دوبارہ تمہارى فرمائشے مان لوں اور اپنے فرزند دل بند کو تمہارے سپرد کر دوں اور وہ بھى ایک دور درازسفر اور پرا ئے دیس کے لئے ،اس کے بعد اس نے مزید کہا :'' ہر حالت میں خدا بہتر ین محا فظ اور''ارحم الرحمین'' ہے_(3)
''پھر ان بھا ئیوں نے جب اپنا سامان کھولا تو انہوں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ وہ تمام چیز یں جو انہوں نے غلے کى قیمت کے طور پر عزیز مصر کو دى تھیں سب انہیں لوٹادى گئی ہیں اور وہ ان کے سامان میں موجود ہیں ''_(4) جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو ان کى گفتگو پر سند قاطع ہے تو باپ کے پاس ائے اور کہنے لگے: ''اباجا ن ہمیں اس سے بڑھ کر اور کیا چا ہیے ، دیکھئے انہوں نے ہمارا تمام مال ومتاع ہمیں واپس کر دیا ہے''_(5)کیا اس سے بڑھ کر کوئی عزت واحترام اور مہر بانى ہو سکتى ہے کہ ایک غیر ملک کا سربراہ ایسے قحط اور خشک سالى میں ہمیں اناج بھى دے اور اس کى قیمت بھى واپس کر دے ، وہ بھى ایسے کہ ہم سمجھ ہى نہ پائیں اور شرمندہ نہ ہو ں ؟ اس سے بڑھ کر ہم کیا تصور کر سکتے ہیں ؟
ابا جا ن اب کسى پر یشا نى کى ضرورت نہیں ہمارے بھا ئی کو ہما رے ساتھ بھیج دیں ہم اپنے گھر والوں کے لئے اناج لے آئیں گے،اور اپنے بھائی کى حفاظت کى کو شش کر یں گے _نیز اس کى وجہ سے ایک اونٹ کا بار بھى زیادہ لا ئیں گے _ اور عزیز مصر جیسے محترم ، مہربان اور سخى شخص کے لئے کہ جسے ہم نے دیکھا ہے ''ایک آسان اور معمولى کا م ہے ''_(6)
ان تمام امور کے باوجود حضرت یعقوب اپنے بیٹے بنیا مین کو ان کے ساتھ بھیجنے کے لئے راضى نہ تھے لیکن دوسرى طرف ان کا اصرار تھا جو واضح منطق کى بنیاد پرتھا یہ صور ت حال انھیںآمادہ کرتى تھى کہ وہ ان کى تجویز قبول کرلیں آخر کار انہوں نے دیکھا کہ اس کے بغیر چارہ نہیں کہ مشروط طور پر بیٹے کو بھیج دیا جا ئے لہذا آپ نے ان سے اس طرح سے کہا : ''میں اسے ہر گز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا ، جب تک کہ تم ایک خدائی پیمان نہ دو اور کو ئی ایسا کا م نہ کرو کہ جس سے مجھے اعتماد پیدا ہو جا ئے کہ تم اسے واپس لے کر آئو گے مگر یہ موت یا دوسرے عوامل کى وجہ سے یہ امر تمہارے بس میں نہ رہے''_(7)
''وثیقہ الہی'' سے مراد وہى قسم ہے جو خدا کے نام کے ساتھ ہے_
بہر حال یوسف(ع) کے بھائیوں نے باپ کى شرط قبول کرلی،اور جب انھوں نے اپنے باپ سے عہد و پیمان باندھاتو یعقوب(ع) نے کہا:خدا شاہد،ناظر اورمحافظ ہے اس بات پر کہ جو ہم کہتے ہیں_(8)
 


(1) سورہ یوسف آیت 63
(2) سورہ یوسف آیت 64
(3) سورہ یوسف آیت 64
(4) سورہ یوسف آیت 65
(5) سورہ یوسف آیت 65
(6)سورہ یوسف آیت 65
(7)سورہ یوسف آیت 66
(8) حضرت یعقوب کیسے راضى ہو گئے : مند رجہ بالاو اقعہ کے سلسلے میں جو پہلا سوال ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ حضرت یعقوب بنیا مین کو ان کے سپر د کرنے پر کیسے آمادہ ہوگئے جب کہ ان کے بھائی ،یو سف (ع) کے بارے میں سلوک کى وجہ سے پہلے برے کردا رکے شمار ہو تے تھے حالا نکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ صر ف یو سف کے بارے میں اپنے دل میں کینہ وحسد نہیںرکھتے تھے بلکہ وہ یہى احساسات اگر چہ نسبتا خفیف ہى سہى بنیا مین کے لئے بھى رکھتے تھے جیسا کہ شروع داستان میں پڑھا_''انہوں نے کہا کہ یوسف اوراس کا بھائی باپ کے نزدیک ہم سے زیادہ محبوب ہے جب کہ ہم زیادہ طاقتور ہیں ''_
اس نکتہ کى طرف تو جہ کر نے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جا تا ہے کہ حضرت یوسف والے حا دثے کو تیس سے چالیس سال تک کا عر صہ بیت چکا تھا اور حضر ت یو سف کے جو ان بھا ئی بڑھا پے کو پہنچ گئے تھے اور فطر تا ان کا ذہن پہلے زما نے کى نسبت پختہ ہو چکا تھا اس کے علاوہ گھر کے ما حول پر اور اپنے مضطرب وجدان پر اپنے برے ارادے کے اثرات وہ اچھى طرح سے محسوس کر تے تھے اور تجربے نے ان پر ثابت کر دیا کہ یوسف کے فقدان سے نہ صرف یہ کہ ان کے لئے باپ کى محبت میں اضا فہ نہ ہوا بلکہ مزید بے مہر ى اور بے التفاتى پیدا ہو گئی _ان سب باتوں سے قطع نظر یہ تو ایک زندگى کا مسئلہ ہے ،قحط سالى میں ایک گھر انے کے لئے اناج مہیاکر نا ایک بہت بڑى چیز تھى اور یہ سیرو تفریح کا معا ملہ نہ تھا جیسا کہ انہوں نے ماضى میں حضرت یو سف کے متعلق فر ما ئشے کى تھى _ان تمام پہلوئوں کے پیش نظر حضرت یعقوب (ع) نے ان کى بات مان لی، لیکن اس شرط کے سا تھ وہ کہ آپ سے عہد وپیمان باندھیں کہ وہ اپنے بھا ئی بنیامین کو صحیح وسالم آپ کے پاس واپس لے آئیں گے
 


جناب یوسف (ع) نے اپنے بھا ئیوں سے ایک پیشکش کیایک دروازے سے داخل نہ ہو نا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma