نمرود سے گفتگو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
ابراہیم علیہ السلام اور نمرودبت پرستوں کى سرزمین سے ابراہیم کى ہجرت

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے مد مقابل اس اجتماع میں کون تھا اور کون آپ(ع) سے حجت بازى کررہا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں اس کے نام کى صراحت نہیں ہے لیکن فرمایا گیا ہے:
اس غرور و تکبر کے باعث جو اس میں نشہ حکومت کى وجہ سے پیدا ہوچکا تھا وہ ابراہیم(ع) سے حجت بازى کرنے لگا_ لیکن حضرت على علیہ السلام سے منقول درمنثور کى ایک حدیث میں اور اسى طرح تواریخ میں اس کا نام ''نمرود بن کنعان''بیان کیا گیا ہے_ یہاں پر اس مباحثے کا وقت نہیں بتایا گیا_لیکن قرائن سے اندازا ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم(ع) کى بت شکنى اور آگ کى بھٹى سے نجات کے بعد کا ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ آگ میں ڈالے جانے سے قبل اس گفتگو کا سوال ہى پیدا نہیں ہوتا تھا،اور اصولى طور پر بت پرست آپ کو ایسے مباحثے کا حق نہ دے سکتے تھے وہ حضرت ابراہیم(ع) کو ایک ایسا مجرم اور گنہ گار سمجھتے تھے جسے ضرورى تھا کہ جتنى جلدى ہوسکے اپنے اعمال اور خدایان مقدس کے خلاف قیام کى سزا ملے_وہ تو انہوں نے بت شکنى کے اقدام کا صرف سبب پوچھا تھا اور اس کے بعد انتہائی غصے اور سختى سے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر ہوا تھا لیکن جب آپ(ع) حیرت انگیز طریقے سے آگ سے نجات پاگئے تو پھر اصطلاحى الفاظ میں''نمرود کے حضور رسائی ہوئی''اور پھر بحث و مباحثے کے لیے بیٹھ سکے_ بہر حال نمرود اپنى حکومت کى وجہ سے بادہ غرور سے سرمست تھا لہذا حضرت ابراہیم(ع) سے پوچھنے لگا تیرا خدا کون ہے_ حضرت ابراہیم(ع) نے کہا: ''وہى جو زندہ کرتا اور مارتا ہے''،حقیقت میں آپ(ع) نے عظیم ترین شاہکار قدرت کو دلیل کے طور پر پیش کیا_ مبداء جہان ہستى کے علم و قدرت کى واضح نشانى یہى قانون موت وحیات ہے لیکن اس نے مکر و فریب کى راہ اختیار کى اور مغالطہ پیدا کرنے کى کوشش کرنے لگا_ لوگوں اور اپنے حمایتیوں کو غافل رکھنے لے لئے کہا وہ تو میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں اور موت و حیات کا قانون میرے ہاتھ میں ہے_قرآن میں اس کے جملے کے بعد واضح نہیں ہے کہ اس نے اپنے پیدا کئے گئے مغالطے کى تائید کے لئے کس طرح عملى اقدام کیا لیکن احادیث و تواریخ میں آیا ہے کہ اس نے فوراًدو قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا_قیدى لائے گئے تو اس نے فرمان جارى کیا کہ ایک کو آزاد کردو اور دوسرے کو قتل کردو_ پھر کہنے لگا:تم نے دیکھا کہ موت و حیات کس طرح میرے قبضے میں ہے_
یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کى موت و حیات سے متعلق دلیل ہر لحاظ سے قوى تھى لیکن دشمن شادہ لوح لوگوں کو جھل دے سکتا تھا لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دوسرا استدلال پیش فرمایا کہ خدا آفتاب کو افق مشرق سے نکالتا ہے اگر جہاں ہستى کى حکومت تیرے ہاتھ میں ہے تو تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا_ یہاں دشمن خاموش،مبہوت اور عاجز ہوگیا_ اس میں سکت نہ رہى کہ اس زندہ منطق کے بارے میں کوئی بات کرسکے_ ایسے ہٹ دھرم دشمنوں کو لاجواب کرنے کایہ بہترین طریقہ ہے_ یہ مسلم ہے کہ موت و حیات کا مسئلہ کئی جہات سے آسمان اور گردش شمس و قمرى کى نسبت پروردگار عالم کے علم و قدرت پر زیادہ گواہى دیتاہے_ اسى بنا_ پر حضرت ابراہیم(ع) نے پہلے وہى مسئلہ پیش کیا اور یہ فطرى امر ہے کہ اگر صاحب فکر اور روشن ضمیر افراد اس مجلس میں ہوں گے تو وہ اسى دلیل سے مطمئن ہوگئے ہوں گے کیونکہ ہر شخص اچھى طرح جانتا ہے کہ ایک قیدى کو آزاد کرنا اور دوسرے کو قتل کردینا یہ طبیعى اور حقیقى موت و حیات سے بالکل ربط نہیں رکھتا، لیکن جو لوگ کم عقل تھے اور اس دور کے ظالم حکمران کے پیدا کردہ مغالطے سے متا ثر ہوسکتے تھے ان کى فکر راہ حق سے منحرف ہوسکتى تھى لہذا آپ(ع) نے دوسرا استدلال پیش کیا اور سورج کے طلوع و غروب کا مسئلہ پیش کیا تا کہ حق ہر دو طرح کے افراد کے سامنے واضح ہوجائے_ اس بات کى توجہ کرنا مناسب ہے کہ قرآنى گفتگو سے یہ بات اچھى واضح ہوتى ہے کہ وہ ظالم اپنے بارے میں الوہیت کا مدعى تھا، یہى نہیں کہ وہ اپنى پرستش کرواتا تھابلکہ اپنے آپ کو عالم ہستى کا پیدا کرنے والابھى بتاتا تھا، یعنى اپنے آپ کو ''معبود'' بھى سمجھتا تھا اور ''خالق'' بھی_

 

 

 

ابراہیم علیہ السلام اور نمرودبت پرستوں کى سرزمین سے ابراہیم کى ہجرت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma