قرآن کریم میں بعض ان نعمات میں سے ایک کى طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو خدا وند تعالى نے حضرت ابراہیم کو عطا کى تھیں ، اور وہ نعمت ہے صالح اور آبرومند اور لائق نسل جو نعمات الہى میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے _
پہلے ارشاد ہوتا ہے : ''ہم نے ابراہیم (ع) کو اسحاق اور یعقوب (فرزند اسحاق ) عطاکئے''_(1)
اور اگر یہاں ابراہیم کے دوسرے فرزند اسماعیل کى طرف اشارہ نہیں ہوا بلکہ بحث کے دوران کہیں ذکر آیا ہے شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اسحاق کا سارہ جیسى بانجھ ماں سے پیدا ہونا ، وہ بھى بڑھا پے کى عمر میں ، بہت عجیب وغریب امراور ایک نعمت غیرمترقبہ تھى _
اس کے بعد یہ بتانے کے لئے کہ کہیں یہ تصور نہ ہو کہ ابراہیم سے قبل کے دور میں کوئی علم بردار توحید نہیں تھا اور یہ کام بس انہى کے زمانے سے شروع ہوا ہے مزید کہتاہے :''اس سے پہلے ہم نے نوح کى بھى ہدایت ورہبرى کى تھى ''_(2)
اور ہم جانتے ہیں کہ نوح پہلے اولوالعزم پیغمبر ہیں جو آئین وشریعت کے حامل تھے اور وہ پیغمبران اولوالعزم کے سلسلے کى پہلى کڑى تھے_
حقیقت میں حضرت نوح(ع) کى حیثیت اور ان کے مقام کى طرف اشارہ کرکے کہ جو حضرت ابراہیم (ع) کے اجدادمیں سے ہیں ، اور اسى طرح پیغمبروں کے اس گروہ کے مقام کا تذکرہ کرکے کہ جو ابراہیم علیہ السلام کى اولاد اور ذریت میں سے تھے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کى ممتاز حیثیت کو وراثت، اصل اور ثمرہ کے حوالے سے مشخص کیا گیا ہے _
اوراس کے بعد بہت سے انبیاء کے نام گنوائے ہیں جو ذریت ابراہیم (ع) میں سے تھے پہلے ارشاد ہوتاہے : ''ابراہیم (ع) کى ذریت میں سے دائود، سلیمان ، ایوب ،یوسف ،موسى اور ہارون تھے''_(3)
اس کے بعد:''زکر(ع) یا ،یحى (ع) ،عیسى (ع) اور الیاس (ع) کانام لیا گیا ہے اور مزید کہاگیا ہے کہ یہ سب صالحین میں سے تھے _''(4)
(1)سورہ انعام آیت 84
(2)سورہ انعام آیت 84
(3) سورہ انعام آیت84
(4)سورہ انعام آیت 85