ضربت على (ع) ثقلین کى عبادت پر بھاری

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
عمرو بن عبدود دسے حضرت على (ع) کى تاریخى جنگنعیم بن مسعود کى داستان اور دشمن کے لشکر میں پھوٹ

امیر المو منین على علیہ السلام نے پہلے تو اسے اسلام کى دعوت دى جسے اس نے قبول نہ کیا پھر میدان چھوڑکر چلے جانے کو کہا اس پر بھى اس نے انکار کیا اور اپنے لئے باعث ننگ وعار سمجھا آپ کى تیسرى پیشکش یہ تھى کہ گھوڑے سے اتر آئے اور پیادہ ہوکر دست بدست لڑائی کرے _
عمرو آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ میں نے کبھى سوچا بھى نہ تھا کہ عرب میں سے کوئی بھى شخص مجھے ایسى تجویزدے گا گھوڑے سے اتر آیا اور على علیہ السلام پر اپنى تلوار کا وار کیا لیکن امیرالمومنین على علیہ السلام نے اپنى مخصوص مہارت سے اس وار کو اپنى سپرکے ذریعے روکا ،مگر تلوار نے سپر کو کاٹ کرآپ کے سرمبارک کو زخمى کردیا اس کے بعد حضرت على علیہ السلام نے ایک خاص حکمت عملى سے کام لیا عمر وبن عبدود سے فرمایا :تو عرب کا زبردست پہلو ان ہے ، جب کہ میں تجھ سے تن تنہا لڑرہا ہوں لیکن تو نے اپنے پیچھے کن لوگوں کو جمع کررکھا ہے اس پر عمر ونے جیسے ہى پیچھے مڑکر دیکھا _
حضرت على علیہ السلام نے عمرو کى پنڈلى پر تلوار کا وار کیا ، جس سے وہ سروقد زمین پر لوٹنے لگا شدید گردوغبار نے میدان کى فضا کو گھیررکھا تھا کچھ منافقین یہ سوچ رہے تھے کہ حضرت على علیہ السلام ، عمرو کے
ہاتھوں شہید ہوگئے ہیں لیکن جب انھوں نے تکبیر کى آواز سنى تو على کى کامیابى ان پر واضح ہوگئی اچانک لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے سرمبارک سے خون بہہ رہا تھا اور لشکر گاہ اسلام کى طرف خراماں خراماں واپس آرہے تھے جبکہ فتح کى مسکراہٹ آپ کے لبوں پر کھیل رہى تھى اور عمر و کا پیکر بے سر میدان کے کنارے ایک طرف پڑا ہوا تھا _
عرب کے مشہور پہلوان کے مارے جانے سے لشکر احزاب اور ان کى آرزوئوں پر ضرب کارى لگى ان کے حوصلے پست اور دل انتہائی کمزور ہوگئے اس ضرب نے ان کى فتح کى آرزوو ں پر پانى پھیردیا اسى بناء پر آنحضرت (ص) نے اس کامیابى کے بارے میں حضرت على علیہ السلام سے ارشاد فرمایا :
''اگر تمہارے آج کے عمل کو سارى امت محمد کے اعمال سے موازنہ کریں تو وہ ان پر بھارى ہوگا، کیونکہ عمرو کے مارے جانے سے مشرکین کا کوئی ایسا گھر باقى نہیں رہا جس میں ذلت وخوارى داخل نہ ہوئی ہو اور مسلمانوں کا کوئی بھى گھر ایسا نہیں ہے جس میں عمرو کے قتل ہوجانے کى وجہ سے عزت داخل نہ ہوئی ہو'' _
اہل سنت کے مشہور عالم ، حاکم نیشاپورى نے اس گفتگو کو نقل کیا ہے البتہ مختلف الفاظ کے ساتھ اور وہ یہ ہے : ''
لمبارزة على بن ابیطالب لعمروبن عبدود یوم الخندق افضل من اعمال امتى الى یوم القیامة ''
'' یعنى على بن ابى طالب کى خندق کے دن عمروبن عبدود سے جنگ میرى امت کے قیامت تک کے اعمال سے ا فضل ہے ''
آپ کے اس ارشاد کا فلسفہ واضح ہے ، کیونکہ اس دن اسلام اور قرآن ظاہراً نابودى کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، ان کے لئے زبردست بحرانى لمحات تھے،جس شخص نے پیغمبر اکرم (ص) کى فداکارى کے بعد اس میدان میں سب سے زیادہ ایثار اور قربانى کا ثبوت دیا،اسلام کو خطرے سے محفوظ رکھا، قیامت تک اس کے دوام کى ضمانت دی،اس کى فداکارى سے اسلام کى جڑیں مضبوط ہوگئیں اور پھر اسلام عالمین پر پھیل گیا لہذا سب لوگوں کى عبادتیں اسکى مرہون منت قرار پا گئیں_
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ مشرکین نے کسى آدمى کو پیغمبر (ص) کى خدمت میں بھیجا تاکہ وہ عمر و بن عبدود کے لاشہ کو دس ہزار درہم میں خرید لائے (شاید ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمان عمرو کے بدن کے ساتھ وہى سلوک کریں گے جو سنگدل ظالموںنے حمزہ(ص) کے بدن کےساتھ جنگ میں کیاتھا)لیکن رسول اکرم(ص) نے فرمایا: اس کا لاشہ تمھا رى ملکیت ہے ہم مردوں کى قیمت نہیں لیا کرتے_
یہ نکتہ بھى قابل توجہ ہے کہ جس وقت عمرو کى بہن اپنے بھائی کے لاشہ پر پہنچى اوراس کى قیمتى زرہ کو دیکھا کہ حضرت على علیہ السلام نے اس کے بدن سے نہیں اتارى تو اس نے کہا:
''میں اعتراف کرتى ہوں کہ اس کا قاتل کریم اور بزرگوارشخص ہى تھا''

 


عمرو بن عبدود دسے حضرت على (ع) کى تاریخى جنگنعیم بن مسعود کى داستان اور دشمن کے لشکر میں پھوٹ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma