حضرت موسى ، جناب خضر کى تلاش میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
حضرت خضر علیہ السلام عرصہ دراز تک جناب خضر علیہ السلام کى تلاش

حضرت موسى علیہ السلام کو کسى نہایت اہم چیزى کى تلاش تھی_وہ اس کى جستجو میں دربدر پھر رہے تھے_وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈ رہے تھے_وہ ارادہ کئے ہوئے تھے کہ جب تک اپنا مقصود نہ پالیں چین سے نہیں بیٹھیں گے_
حضرت موسى علیہ السلام جس کى تلاش پر مامور تھے اس کا آپ(ع) کى زندگى پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) کى زندگى کا نیا باب کھول دیا_جى ہاںوہ ایک مرد عالم و دانشمند کى جستجو میں تھے_ایسا عالم کہ جو حضرت موسى علیہ السلام کى آنکھوں کے سامنے سے بھى حجاب ہٹا سکتا تھا اور انہیں نئے حقائق سے روشناس کرواسکتا تھا اور ان کے لئے علوم و دانش کے تازہ باب کھول سکتا تھا_
اتفاقاً ایک حدیث کہ جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے اسمیں صراحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) سے زیادہ عالم تھے یعنى علم شریعت میں_
شاید اس سوال کا جواب نہ پانے کى وجہ سے اور نسیان سے مربوط سوال کا جواب نہ پانے کے سبب بعض نے ان آیات میں جن موسى علیہ السلام کا ذکر ہے اسے موسى بن عمران تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے_
ایک حدیث کہ جو حضرت على بن موسى رضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس سے بھى یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا دائرہ کار اور قلمرو ایک دوسرے سے مختلف تھى اور ہر ایک دوسرے سے اپنے کام میں زیادہ عالم تھا_
ہم اس سلسلے میں جلد پڑھیں گے کہ اس عالم بزرگ کى جگہ معلوم کرنے کے لئے حضرت موسى علیہ السلام کے پاس ایک نشانى تھى اور وہ اس نشانى کے مطابق ہى چل رہے تھے_
قرآن کہتا ہے :وہ وقت یاد کرو جب موسى نے اپنے دوست اور ساتھى جوان سے کہاکہ میں تو کوشش جارى رکھوں گا جب تک''مجمع البحرین''تک نہ پہنچ جائوں،اگر چہ مجھے یہ سفر لمبى مدت تک جارى رکھنا پڑے''_(1)
مجمع البحرین کا مطلب ہے دو دریائوں کا سنگم_اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ ''بحرین''سے یہاں کون سے دو دریا ہیں_اس سلسلے میں تین مشہور نظریئےیں:
1_خلیج عقبہ اور خلیج سویز کے ملنے کى جگہ_ہم جانتے ہیں کہ بحیرہ احمر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے_ایک حصہ شمال مشرق کى طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب کى طرف پہلے حصے کو خلیج عقبہ کہتے ہیں اور دوسرے کو خلیج سویز اور یہ دونوں خلیجیں جنوب میں پہنچ کر آپس میں مل جاتى ہیں اور پھر بحیرہ احمر اپنا سفر جارى رکھتا ہے_
2_اس سے بحر ہند اور بحیرہ احمر کے ملنے کى طرف اشارہ ہے کہ جو باب المندب پر جاملتے ہیں_
3_یہ بحیرہ روم اور بحر اطلس کے سنگم کى طرف اشارہ ہے کہ جو شہر طنجہ کے پاس جبل الطارق کا تنگ دہانہ ہے_
تیسرى تفسیر تو بہت ہى بعید نظر آتى ہے کیونکہ حضرت موسى علیہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اس زمانے میں حضرت موسى علیہ السلام اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو کئی ماہ لگ جاتے_
دوسرى تفسیر میں جس مقام کى نشاندہى کى گئی ہے اس کا فاصلہ اگر چہ نسبتاًکم بنتا ہے لیکن اپنى حد تک وہ بھى زیادہ ہے کیونکہ شام سے جنوبى یمن میں فاصلہ بھى بہت زیادہ ہے_
پہلا احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتاہے کیونکہ حضرت موسى علیہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے یعنى شام سے خلیج عقبہ تک کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے_ویسے بھى قرآنى آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسى علیہ السلام نے کوئی زیادہ سفر طے نہیں کیا تھا اگر چہ مقصد تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ سفرکے لئے بھى تیار تھے_


(1)سورہ کہف آیت 60

 

 

حضرت خضر علیہ السلام عرصہ دراز تک جناب خضر علیہ السلام کى تلاش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma