ابوجہل ابھى تک خاموش بیٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع کى اور کہا : میرا ایک نظریہ ہے اور اس کے علاوہ میں کسى رائے کو صحیح نہیں سمجھتا _
حاضرین کہنے لگے :وہ کیا ہے ؟
کہنے لگا : ہم ہر قبیلے سے ایک بہادر شمشیر زن کا انتخاب کریں اور ان میں سے ہر ایک ہاتھ میں ایک تیز تلوار دے دیدیں اور پھر وہ سب مل کر موقع پاتے ہى اس پر حملہ کریں جب وہ اس صورت میں قتل ہوگا تو اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ بنى ہاشم تمام قبائل قریش سے لڑسکیں گے لہذا مجبورا اس صورت میں خون بہا پر راضى ہوجائیں گے اور یوں ہم بھى اس کے آزار سے نجات پالیں گے_
بوڑھے نجدى نے (خوش ہوکر ) کہا: بخدا : صحیح رائے یہى ہے جو اس جواں مرد نے پیش کى ہے میرا بھى اس کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں _
اس طرح یہ تجویز اتفاق رائے سے پاس ہوگئی اور وہ یہى مصمم ارادہ لے کروہاں سے اٹھے _