یہ سکینہ کیا تھا ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
مومنین کے دلوں پرنزول سکینہپیچھے رہ جانے والوں کى عذر تراشی

ضرورى ہے کہ ہم پھر''صلح حدیبیہ'' کى داستان کى طرف لوٹیں اور اپنے آپ کو'' صلح حدیبیہ '' کى فضا میں اور اس فضاء میں جو صلح کے بعد پیدا ہوئی ، تصور کریں تاکہ آیت کے مفہوم کى گہرائی سے آشنا ہوسکیں _
پیغمبر اکرم (ص) نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک رئویائے الہى ورحمانی) کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل ہورہے ہیں اور اس کے بعد خان ہ خدا کى زیارت کے عزم کے ساتھ چل پڑے زیادہ تر صحابہ یہى خیال کرتے تھے کہ اس خواب اورر و یائے صالحہ کى تعبیر اسى سفر میں واقع ہوگی، حالانکہ مقدر میں ایک دوسرى چیز تھى یہ ایک بات_
دوسرى طرف مسلمانوں نے احرام باندھا ہوا تھا، لیکن ان کى توقع کے بر خلاف خانہ خدا کى زیارت کى سعادت تک نصیب نہ ہوئی اور پیغمبر اکرم (ص) نے حکم دے دیا کہ مقام حدیبیہ میں ہى قربانى کے اونٹوں کو نحرکہ دیں ،کیونکہ ان کے آداب وسنن کا بھى اور اسلامى احکام ودستور کا بھى یہى تقاضا تھا کہ جب تک مناسک عمرہ کو انجام نہ دے لیں احرام سے باہر نہ نکلیں _
تیسرى طرف حدیبیہ کے صلح نامہ میں کچھ ایسے امور تھے جن کے مطالب کو قبول کرنا بہت ہى دشوار تھا،منجملہ ان کے یہ کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور مدینہ میں پناہ لے لے تو مسلمان اسے اس کے گھروالوں کے سپرد کردیں گے،لیکن اس کے برعکس لازم نہیں تھا _
چوتھى طرف صلح نامہ کى تحریر کے موقع پر قریش اس بات پر تیار نہ ہوئے کہ لفظ ''
رسول اللہ'' محمد'' کے نام کے ساتھ لکھا جائے، اور قریش کے نمائندہ '' سہیل '' نے اصرار کرکے اسے حذف کرایا ، یہاں تک کہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' کے لکھنے کى بھى موافقت نہ کى ،اور وہ یہى اصرار کرتا رہا کہ اس کے بجائے ''بسمک اللھم''لکھاجائے ، جو اہل مکہ کى عادت اور طریقہ کے مطابق تھاواضح رہے، کہ ان امور میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ ایک ناگوار امرتھا_
چہ جائیکہ وہ سب کے سب مجموعى طور سے وہاں جاتے رہے، اسى لئے ضعیف الایمان ،لوگوں کے دل ڈگمگا گئے ،یہاںتک کہ جب سورہ فتح نازل ہوئی تو بعض نے تعجب کے ساتھ پوچھا :کونسى فتح ؟
یہى وہ موقع ہے جب نصرت الہى کو مسلمانوں کے شامل حال ہونا چاہئے تھا اور سکون واطمینان ان کے دلوں میں داخل ہوتا تھا نہ یہ کہ کوئی فتور اورکمزورى ان میں پیداہوتى تھی_
بلکہ '
'لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم''_ کے مصداق کى قوت ایمانى میں اضافہ ہونا چاہئے تھا اوپر والى آیت ایسے حالات میں نازل ہوئی _
ممکن ہے اس سکون میں اعتقادى پہلو ہو اور وہ اعتقاد میں ڈگمگا نے سے بچائے ، یا اس میں عملى پہلو ہواس طرح سے کہ وہ انسان کو ثبات قدم ، مقاومت اور صبر و شکیبائی بخشے _
 

 

مومنین کے دلوں پرنزول سکینہپیچھے رہ جانے والوں کى عذر تراشی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma