قرآن میں بنى اسرائیل کى زندگى کا ایک اور منظر بیان کیا گیا ہے_ ایک مرتبہ پھر حضرت موسى علیہ السلام کو اپنى قوم سے جھگڑنا پڑا ہے،حضرت موسى علیہ السلام کا خدا کے مقام وعدہ پر جانا،وحى کے ذریعے احکام توریت لینا،خدا سے باتیں کرنا،کچھ بزرگان بنى اسرائیل کو میعاد گاہ میں ان واقعات کے مشاہدہ کے لئے لانا،اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کو ان آنکھوں سے ہر گز نہیں دیکھا جاسکتا_
پہلے فرمایا گیا ہے:''ہم نے موسى سے تیس راتوں (پورے ایک مہینہ)کا وعدہ کیا،اس کے بعد مزید دس راتیں بڑھا کر اس وعدہ کى تکمیل کی، چنانچہ موسى سے خدا کا وعدہ چالیس راتوں میں پورا ہوا''_(1)
اس کے بعد اس طرح بیان کیا گیا ہے:''موسى نے اپنے بھائی ہارون سے کہا:میرى قوم میں تم میرے جانشین بن جائو اور ان کى اصلاح کى کوشش کرو اور کبھى مفسدوں کى پیروى نہ کرنا''_(2)(3)
مفسرین کے درمیان اس تفریق کے بارے میں بحث ہے، لیکن جو بات بیشتر قرین قیاس ہے،
(1)سورہ اعراف آیت 142
(2)سورہ اعراف آیت143
(3)پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے ہى سے چالیس راتوں کا وعدہ کیوں نہ کیا بلکہ پہلے تیس راتوں کا وعدہ کیا اس کے بعد دس راتوں کا اور اضافہ کردیا_