مستضعفین کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
دو دوست یا دوبرادراور یہ ان کا انجام

قرآن میں اس مغرور،بے ایمان،خود غرض دولت مند کى بے بنیاد باتوں کا جواب اس کے مومن دوست کى زبانى دیا گیا ہے_ پہلے وہ خاموشیسے اس کوتاہ فکر انسان کى باتیں سنتا رہا تاکہ جو کچھ اس کے اندر ہے باہر آجائے اور پھر ایک ہى بار اسے جواب دیا جائے_''اس نے کہا:کیا تو اس خدا سے کافر ہوگیا ہے جس نے تجھے مٹیسے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور پھر تجھے پورا شخص بنایا_(1)(2)
اس کے بعد اس باایمان شخص نے اس کے کفر اورغرور کو توڑنے کے لئے کہا:''لیکن میرا تو ایمان ہے کہ اللہ میرا پروردگار ہے ،(3)اور مجھے اس عقیدے پر فخر ہے''_
تو اس بات پر نازاں ہے کہ تیرے پا س باغات،کھیتیاں،پھل اور پانى فراواں ہیں لیکن مجھے اس پر فخر ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے،میرا خالق و رازق وہ ہے،تجھے اپنى دنیا پر فخر ہے اور مجھے اپنے عقیدہ توحید و ایمان پر،''اور میں کسى کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیتا''_(4)
توحید اور شرک کا مسئلہ انسان کیسرنوشت میں اہم ترین کردار ادا کرتاہے_پھر اس کے بارے میں گفتگو اگے بڑھائی اور اس کى ملامت کرتے ہوئے کہا:''جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو تو نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ نعمت اللہ کى منشا سے ہے''_(5)تو نے اسے اللہ کى جانب سے کیوں نہیں جانا اور اس کا شکر کیوں نہیں بجالایا _ ''تو نے کیوں نہیں کہا کہ اللہ کے سوا کسى کى کچھ طاقت نہیں''_(6)
اگر تو نے زمین میں ہل چلایا ہے،بیج بویا ہے،درخت لگائے ہیں،قلمیں لگا ئی ہیں اور تجھے ہر موقع پر سب کچھ میسر آیا ہے یہاں تک کہ تو اس مقام پر پہنچا ہے تو سب اللہ کى قدرت سے استفادہ کرنے کى وجہ سے ہے_ یہ تمام وسائل اور صلاحتیں تجھے اللہ نے بخشى ہیں،اپنى طرف سے تو کچھ بھى تیرے پاس نہیں ہے اور اس کے بغیر تو کچھ بھى نہیں ہے_ اس کے بعد اس نے مزیدکہا:''یہ جو تجھے نظر آتا ہے کہ میں مال و اولاد کے لحاظ سے تجھ سے کم ہوں (یہ کوئی اہم بات نہیں ہے)_اللہ تیرے باغ کى نسبت مجھے بہتر عطا کر سکتا ہے''_(7)
''بلکہ یہ بھى ہو سکتا ہے کہ خداآسمان سے تیرے باغ پر بجلى گرائے اور دیکھتے ہى دیکھتے یہ سر سبز و شاداب زمین ایسے چٹیل میدان میں بدل جائے کہ جہاں پائوں پھسلتے ہوں''_(8)
یا زمین کو حکم دے کہ وہ ہل جائیں اور''یہ چشمے اور نہریں اس کى تہہ میں ایسى چلى جائیں کہ پھر تو انہیں پا نہ سکے''_(9)
در اصل وہ کہتا ہے کہ تو نے اپنى آنکھوں سے دیکھا ہے یا کم از کم سنا ہے کہ کبھى ایسا بھى ہوتا ہے کہ آسمان سے بجلى لمحہ بھر میں باغوں،گھروں اور کھیتوں کو مٹى کے ٹیلوں یا بے آب و گیا ہ زمین میں بدل کے رکھ دیتى ہے_نیز تو نے سنا ہے یا دیکھا ہے کبھى زمین پر ایسا زلزلہ آتا ہے کہ چشمے خشک ہوجاتے ہیں اور نہریں نیچے چلى جاتى ہیں اسطرح سے کہ وہ قابل اصلاح بھى نہیں رہتیں_جب تو ان چیزوں کو جانتا ہے تو پھر یہ غرور و غفلت کس بناء پر؟ تو نے یہ منظر دیکھے ہیں تو پھر یہ دلبستگى آخر کیوں؟تو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ نعمتیں کبھى فنا ہوں گى اور تو یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمیشہ رہیں گی_یہ کیسى نادانى اور حماقت ہے؟


(1)سورہ کہف آیت37
(2)یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ گزشتہ میں مغرور شخص کى جو باتیں ہم نے پڑھى ہیں ان میں وجود خدا کا صریح انکا رتو موجود نہیں ہے جبکہ ایک توحید پرست شخص اسے جو جواب دے رہا ہے ظاہراًسب سے پہلے اسے انکار خدا پر سرزنش کررہا ہے اور اسے تخلیق انسان کے حوالے سے خدائے عالم و قادر کى طرف متوجہ کررہا ہے کیونکہ تخلیق انسان دلائل توحید میں سے بہت واضح دلیل ہے_
مفسرین نے مذکورہ سوال کے جواب میں مختلف تفسیریں پیش کى ہیں،مثلاً:
1_بعض کا کہنا ہے کہ اس مغرور شخص نے صراحت کے ساتھ معاد اور قیامت کا انکا رکیا ہے یا پھر اسے شک کى نظر سے دیکھا ہے جس کا لازمى نتیجہ انکار خدا ہے کیونکہ معاد جسمانى کے منکر در حقیقت قدرت خدا کے منکر ہیں_انہیں اس بات پر یقین نہیں کہ منتشر ہوجانے کے بعد مٹى پھر سے لباس حیات پہن سکے گی_
2_بعض نے کہا ہے کہ اس کے شرک اور کفر کى وجہ یہ تھى کہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ مالکیت خود اس کى اپنى طرف سے ہے_ یعنى وہ اپنے لئے مالکیت کا قائل تھا اور اپنى مالکیت کو جاودانى خیال کرتا تھا_
3_تیسرا احتمال بھى بعید نظر نہیں آتا ،وہ یہ کہ اس نے اپنى کچھ باتوں میں خدا کا انکار کیا تھا اور اللہ تعالى نے اس کیسارى باتیں بیان نہیں کیں_اس کا اندازہ اس باایمان شخص کى باتوں سے کیا جاسکتا ہے_
(3)سورہ کہف آیت38

(4)سورہ کہف آیت38
(5)سورہ کہف 39
(6)سورہ کہف آیت 39
(7)سورہ کہف آیت 39تا40
(8)سورہ کہف آیت40
(9)سورہ کہف آیت41

 

 

دو دوست یا دوبرادراور یہ ان کا انجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma