بھا ئیوں نے دیکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی بنیامین کو اس قانون کے مطابق عزیز مصر کے پاس رہنا پڑے گا جسے وہ خو د قبول کر چکے ہیں اور دوسرى طرف انہوں نے باپ سے پیمان باند ھا تھا کہ بنیامین کى حفاظت اور اسے واپس لانے کے لئے اپنى پورى کو شش کریں گے ایسے میں انہوں نے یوسف کى طرف رخ کیا جسے ابھى تک انہوں نے پہچانا نہیں تھا اور کہا : ''اے عزیز مصر : اے بزر گور صاحب اقتدار : اس کا باپ بہت بوڑھا ہے اور وہ اس کى جدا ئی کو برداشت کر نے کى طاقت نہیں رکھتا ہم نے آپ کے اصرار پر اسے باپ سے جدا کیا اور باپ نے ہم سے تاکید ى وعدہ لیا کہ ہم ہر قیمت پر اسے واپس لائیں گے اب ہم پر احسان کیجئے اور اس کے بدلے میں ہم میں سے کسى ایک کو رکھ لیجئے ، ''کیونکہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ نیکوکاروں میں سے ہیں ''_(1)
اور یہ پہلا مو قع نہیں کہ آپ نے ہم پر لطف وکرم اور مہرومحبت کى ہے ، مہر بانى کر کے اپنى کر م نوازیوں کى تکمیل کیجئے _
حضرت یو سف (ع) نے اس تجویز کى شدت سے نفى کى ''اور کہا :پناہ بخدا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس سے ہمارا مال ومتا ع برآمد ہوا ہے ہم اس کے علاوہ کسى شخص کو رکھ لیں ''کبھى تم نے سنا ہے کہ ایک منصف مزاج شخص نے کسى بے گناہ کو دوسرے کے جرم میں سزا دى ہو _(2)'' اگر ہم ایسا کریں تو یقینا ہم ظالم ہوں گے''_ (3) یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت یوسف نے اپنى اس گفتگو میں بھائی کى طرف چورى کى کوئی نسبت نہیں دى بلکہ کہتے ہیں کہ ''جس شخص کے پاس سے ہمیں ہمارامال ومتا ع ملا ہے ''اور یہ اس امر کى دلیل ہے کہ وہ اس امر کى طرف سنجید گى سے متوجہ تھے کہ اپنى پورى زندگى میں کبھى کوئی غلط بات نہ کریں _
(1)سورہ یوسف آیت 78
(2)(3)سورہ یوسف آیت 79