قافلہ کنعان پہو نچتا ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
آخر کار لطف الہى نے اپنا کام کرڈالایوسف (ع) ، یعقوب اور بھائیوں کى سرگزشت کا اختتام

کئی رات دن بیت گئے یعقوب اسى طرح انتظار میں تھے ایسا پر سوز انتظار کہ جس کى گہرائی میں مسرت وشاد مانى اور سکون واطمینان مو جزن تھا حالانکہ ان کے پاس رہنے والوں کو ان مسائل سے کو ئی دلچسپى نہ تھى اور وہ سمجھتے تھے کہ یو سف کا معا ملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا ہے معلوم نہیں یعقوب پر یہ چند دن کس طرح گز ریںگے_ آخر ایک دن آیا جب آوزآئی وہ دیکھو مصر سے کنعان کا قافلہ آیا ہے گزشتہ سفروں کے بر خلاف فرزند ان یعقوب شاداں وخرّم شہر میں داخل ہوئے اور بڑى تیزى سے باپ کے گھر پہنچ گئے سب سے پہلے ''بشیر ''بوڑھے یعقوب کے پاس آیا وہی'' بشیر '' (جو وصال کى بشارت لایا تھا اور جس کے پاس یو سف کا پیر اہن تھا ) اس نے آتے ہى پیر اہن یعقوب کے چہر ے پر ڈال دیا _
یعقوب کى آنکھیں تو بے نور تھیں وہ پیر اہن کو دیکھ نہ سکتے تھا انہوں نے محسوس کیا کہ ایک آشنا خو شبو ان کى مشام جان میں اتر گئی ہے یہ ایک پُرکیف زریں لمحہ تھا گویا ان کے وجود کا ہر ذرہ روشن ہو گیا ہو آسمان وزمین مسکرا اٹھے ہوں ہر طرف قہقہے بکھر گئے ہوں نسیم رحمت چل اٹھى ہوا اور غم واند وہ کا گر د وغبار لپیٹ کر لے جارہى ہو، درود یوار سے خوشى کے نعرے سنا ئی دے رہے تھے اور یعقوب کى آنکھیں روشن ہو گئی ہیں اور وہ ہر جگہ دیکھ رہے ہیں دنیا اپنى تمام تر زیبا ئیوں کے ساتھ ایک مر تبہ پھر ان آنکھوں کے سامنے تھى جیسا کہ قرآن کہتا ہے :'' جب بشارت دینے والا آیا تو اس نے وہ (پیراہن ) ان کے چہرے پر ڈال دیا تو اچا نک وہ بینا ہو گئے''_ (1)
بھا ئیوں اور گر دو پیش والوں کى آنکھوں سے خوشى کے آنسو امنڈ آئے اور یعقوب نے پورے اعتماد سے کہا : ''میں نہ کہتا تھا کہ میں خدا کى طرف سے ایسى چیزیں جانتا ہوں جنہیںتم نہیں جا نتے ''(2) اس معجزے پر بھا ئی گہرى فکر میں ڈوب گئے ایک لمحے کے لئے اپنا تاریک ماضى ان کى آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ، خطا ،گنا ہ ، اشتباہ اور تنگ نظر ى سے پُر ماضى _
لیکن کتنى اچھى بات ہے کہ جب انسان اپنى غلطى کو سمجھ لے تو فوراً اس کى اصلاح اور تلافى کى فکر کرے فرزند ان یعقوب بھى اسى فکر میں گم ہو گئے انہوں نے باپ کا دامن پکڑلیا اور کہا :''بابا جا ن خدا سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمارے گنا ہوں اور خطائوں کو بخش دے کیو نکہ ہم گنہگار اور خطا کار تھے_''(3)
بزرگور اور با عظمت بوڑھا جس کا ظرف سمندر کى طرح وسیع تھا ، اس نے کوئی ملامت وسرزنش کئے بغیر ان سے وعدہ کیا کہ'' میں بہت جلدى تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کروں گااور مجھے امید ہے کہ وہ تمہارى تو بہ قبول کرلے گا اور تمہارے گناہوں سے صرف نظر کرے گا ''کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے_''(4)(5)
1_یعقوب نے پیراہن یو سف کى خو شبو کیسے محسو س کى ؟
یہ سوال بہت سے مفسر ین نے اٹھا یا ہے اور اس پر بحث کى ہے عام طور پر مفسرین نے اسے یعقوب یا یو سف کا معجزہ قرار دیا ہے لیکن چو نکہ قرآن نے اسے اعجاز یا غیر اعجا ز ہو نے کے لحاظ سے پیش نہیں کیا اور اس سلسلے میں خا مو شى اختیار کى ہے اس کى سائنس توجیہ معلوم کى جاسکتى ہے_
موجودہ زمانے میں ''ٹیلى پیتھی'' ایک مسلمہ علمى مسئلہ ہے ( اس میں یہ بات تسلیم کى گئی ہے کہ ایک دوسرے سے دور رہنے والے کے درمیان فکرى ارتباط اور روحانى رابطہ ہوسکتا ہے اسے ''انتقال فکر'' کہتے ہیں) ایسے افراد جو ایک دوسرے سے نزدیکى تعلق رکھتے ہیں یا جو بہت زیادہ روحانى طاقت رکھتے ہیں یہ تعلق ان کے درمیان پیدا ہوتا ہے شاید ہم میں سے بہت سے افراد نے اپنى روز مرہ کى زندگى میں اس کا سامنا کیا ہو کہ بعض اوقات کسى کى والدہ یا بھائی اپنے اندر بلاسبب بہت زیادہ
اضطراب او رپریشانى محسوس کرتے ہیں اور زیادہ دیر نہیں گذر تى کے کہ خبر پہنچتى ہے کہ اس کے بیٹے یا بھائی کو فلاں دور دراز علاقے میں ایک ناگوار حادثہ پیش آیا ہے_
ماہرین اس قسم کے احساس کو ٹیلى پیتھى اور دور دراز کے علاقوں سے انتقال فکرى کا عمل قرار دیتے ہیں_
حضرت یعقوب (ع) کے واقعہ میں بھى ممکن ہے کہ یوسف (ع) سے شدید محبت اور آپ کى روحانى عظمت کے سبب آپ میں وہى احساس پیدا ہوگیا جو یوسف کا کرتہ اٹھاتے وقت بھائیوں میں پیدا ہوا تھا_
البتہ یہ بات بھى ہر طرح ممکن ہے کہ اس واقعہ کا تعلق انبیاء کے دائرہ علم کى وسعت سے ہو ، بعض روایات میں بھى انتقال فکر کے مسئلہ کى طرف جاذب نظر اور عمدہ اشارہ کیا گیا ہے مثلاً: کسى نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا : کبھى ایسا ہوتا ہے کہ میں بغیر کسى مصیبت یا ناگوار حادثہ کے غمگین ہوجاتا ہوں یہاں تک کہ میرے گھروالے اور میرے دوست بھى اس کے اثرات میرے چہرے پر دیکھ لیتے ہیں_
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، خدا نے مومنین کو ایک ہى بہشتى طینت سے پیدا کیا ہے اور اس کى روح ان میں پھونکى ہے لہذا مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں جس وقت کسى ایک شہر میں ان میں سے کسى ایک بھائی کو کوئی مصیبت پیش آتى ہے تو باقى افراد پر اس کا اثر ہوتا ہے_
بعض روایات سے یہ بھى معلوم ہوتا ہے کہ یہ کرتہ کوئی عام کرتہ نہ تھا بلکہ ایک جنتّى پیراہن تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کى طرف سے خاندان یعقوب (ع) میں یادگار کے طور پر چلاآرہا تھا اور جو شخص حضرت یعقوب (ع) کى طرح بہشتى قوت شامہ رکھتا تھا وہ اس کى خوشبو دور سے محسوس کرلیتا تھا_
2_انبیاء کے حالات میں فرق_
یہاں پر ایک اور مشہور اعتراض سامنے آتا ہے فارسى زبان کے اشعار میں بھى یہ اعتراض بیا ن کیا گیا ہے، کسى نے یعقوب (ع) سے کہا:
زمصرى بوى پیراہن شنیدی
چرا در جاہ کنعانش نہ دیدی
یعنى آپ نے مصر سے پیراہن کى خوشبو سونگھ لى لیکن آپ کو کنعان کے کنویں میں یوسف کیوں نہ دکھائی دئے؟
کیسے ہوسکتا ہے کہ اس عظیم پیغمبر نے اتنے دور دراز کے علاقے سے یوسف (ع) کى قمیص کى خوشبو سونگھ لى جب کہ بعض نے یہ فاصلہ اسّى فرسخ لکھا ہے اور بعض نے دس دن کى مسافت بیان کى ہے لیکن اپنے علاقہ کنعان کے اندر جب کہ یوسف کو اس کے بھائی کنویں میں پھینک رہے تھے اور ان پر وہ واقعات گزرہے تھے اس سے یعقوب (ع) آگاہ نہ ہوئے؟
قبل اس کے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے علم غیب کى حدود کے بارے میں جو کچھ کہا جاچکا ہے اس کى طرف توجہ کرتے ہوئے اس سوال کا جواب ہرگز مشکل نہیں رہتا،امور غیب کے متعلق ان کا علم پروردگار کے ارادے اور عطاکئے ہوئے علم پر منحصر ہے جہاں خدا چاہتا ہے وہ جانتے ہیں، چاہے واقعہ کا تعلق کسى بہت دور دراز علاقے سے ہو اور جہاں وہ نہ چاہے نہیں جانتے چاہے معاملہ کسى نزدیک ترین علاقے سے مربط ہو جیسے کسى تاریک رات میں ایک قافلہ کسى بیابان سے گزررہا ہو آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو ایک لمحہ کے لئے آسمان سے بجلى چمک اٹھے اور بیابان کى تمام گیرائیاں او رگہرائیاں روشن ہوجائیں اور تمام مسافر ہر طرف سب کچھ دیکھ لیں لیکن دوسرے لمحہ وہ بجلى خاموش ہوجائے او رپھر تاریکى ہر طرف چھا جائے اسى طرح سے کہ کوئی چیز نظر نہ آئے_
شاید امام جعفر صادق علیہ السلام سے علم امام کے بارے میں مروى یہ حدیث اسى مفہوم کى طرف اشارہ کرتى ہے ، آپ فرماتے ہیں: ''
جعل اللہ بینہ وبین الامام عموداً من نور ینظر اللہ بہ الى الامام وینظر الامام بہ الیہ، فاذا راد علم شى ء نظر فى ذالک النور فعرفہ '' خد انے اپنے اور امام وپیشوائے خلق کے درمیان نور کا ایک ستون بنایا ہے اسى سے خدا امام کى طرف دیکھتا ہے اور امام بھى اسى طریق سے اپنے پروردگار کى طرف دیکھتا ہے اور جب امام کوئی چیز جاننا چاہتا ہے تو نور کے اس ستون میں دیکھتا ہے اور اس سے آگاہ ہوجاتا ہے_
ایک شعر جو پہلے ذکر کیا گیا ہے اس کے بعد سعدى کے مشہور اشعار میں اسى روایات کے پیش نظر کہا گیا ہے:


بگفت احوال ما برق جہان است
گہى پیدا ودگر دم نہان است


گہى برکارم اعلا نشینم
گہى تاپشت پاى خود نبینم
یعنى اس نے کہا ہمارے حالات چمکنے والى بجلى کى طرح ہیں جو کبھى دکھائی دیتى ہے اور کبھى چھپ جاتى ہے_
کبھى ہم آسمان کى بلندیوں پر بیٹھتے ہیں اور کبھى اپنے پائوں کے پیچھے بھى کچھ دکھائی نہیں دیتا_
اس حقیقت کى طرف توجہ کرتے ہوئے تعجب کا مقام نہیں کہ ایک دن مشیت الہى کى بناء پر یعقوب (ع) کى آزمائشے --


(1) سورہ یوسف آیت 96

(2) سورہ یوسف آیت 96
(3) سورہ یوسف آیت 97
(4) سورہ یوسف آیت 98
(5)یہاں پر چند سوال پیدا ہو تے ہیں :

 

 

آخر کار لطف الہى نے اپنا کام کرڈالایوسف (ع) ، یعقوب اور بھائیوں کى سرگزشت کا اختتام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma