آخرکار حضرت موسى علیہ السلام کى دعا قبول ہوئی اور بنى اسرائیل اپنے ان برے اعمال کے انجام سے دوچار ہوئے خدا کى طرف سے حضرت موسى علیہ السلام کو وحى ہوئی :''یہ لوگ اس مقدس سرزمین سے چالیس سال تک محروم رہیں گے جو طرح طرح کى مادى اورر وحانى نعمات سے مالامال ہے''_(1)
علاوہ ازیں ان چالیس سالوں میں انھیں اس بیابان میں سرگرداں رہنا ہوگا اس کے بعد حضرت موسى علیہ السلام سے فرمایا گیا ہے : ''اس قوم کے سرپر جو کچھ بھى آئے وہ صحیح ہے، ان کے اس انجام پر کبھى غمگین نہ ہونا ''_(2)
آخرى جملہ شاید اس لئے ہو کہ جب بنى اسرائیل کے لئے یہ فرمان صادر ہوا کہ وہ چالیس سال تک سزا کے طور پر بیابان میں سرگرداںرہیں حضرت موسى علیہ السلام کے دل میں جذب ہ مہربانى پیدا ہوا ہو اور شاید انھوں نے درگاہ خداوندى میں ان کے لئے عفوودر گذر کى درخواست بھى کى ہوجیسا کہ موجودہ توریت میں بھى ہے_
لیکن انھیں فوراً جواب دیا گیا کہ وہ اس سزا کے مستحق ہیں نہ کہ عفوودرگذرکے، کیونکہ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ وہ فاسق اور سرکش لوگ تھے اور جو ایسے ہوں ان کے لئے یہ انجام حتمى ہے _
توجہ رہے کہ ان کے لئے چالیس سال کى یہ محرومیت انتقامى جذبے سے نہ تھى (جیسا کہ خدا کى طرف سے کوئی سزا بھى ایسى نہیں ہوتى بلکہ وہ یا اصلاح کے لئے ہوتى ہے اور یا عمل کا نتیجہ)درحقیقت اس کا ایک فلسفہ تھا اور وہ یہ کہ بنى اسرائیل ایک طویل عرصے تک فرعونى استعمار کى ضربیں جھیل چکے تھے،اس عرصے میں حقارت آمیز رسومات،اپنے مقام کى عدم شناخت اور احساسات ذلت کا شکار ہو چکے تھے اور حضرت موسى علیہ السلام جیسے عظیم رہبر کى سر پرستى میں اس تھوڑے سے عرصے میں اپنى روح کو ان خامیوں سے پاک نہیں کرسکے تھے اور وہ ایک ہى جست میں افتخار،قدرت اور سربلندى کى نئی زندگى کے لئے تیار نہیں ہو پائے تھے_
حضرت موسى علیہ السلام نے انھیں مقدس سرزمین کے حصول کے لئے جہاد آزادى کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل نہ کرنے کے لئے انھوں نے جو کچھ کہا وہ اس حقیقت کى واضح دلیل ہے لہذا ضرورى تھا کہ وہ ایک طویل مدت وسیع بیابانو ںمیں سرگرداں رہیں اور اس طرح ان کى ناتواں اور غلامانہ ذہنیت کى حامل موجودہ کمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجائے اور نئی نسل حریت و آزادى کے ماحول میں اورخدائی تعلیمات کى آغوش میں پروان چڑھے تاکہ وہ اس قسم کے جہاد کے لئے اقدام کرسکے او راس طرح سے اس سرزمین پر حق کى حکمرانى قائم ہو سکے_
(1)سورہ مائدہ آیت26
(2)سورہ مائدہ آیت