حضرت آدم علیہ السلام کو آب حیات کى تمنا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
شیطان کا وسوسہ شجرہ ممنوعہ کونسادرخت تھا؟

آدم ، جنہیں زندگى کا ابھى کافى تجربہ نہ تھا ، نہ ہى وہ ابھى تک شیطان کے دھوکے، جھوٹ اور نیرنگ میں گرفتار ہوئے تھے ،انہیں یہ یقین نہیںہوسکتا تھا کہ کوئی اتنى بڑى جھوٹى قسم بھى کھا سکتا ہے اور اس طرح کے جال، دوسرے کو گرفتار کرنے کےلئے پھیلا سکتا ہے، آخرکار وہ شیطان کے فریب میں آگئے اور آب حیات وسلطنت جاودانى حاصل کرنے کے شوق میں مکر ابلیسى کى بوسیدہ رسى کو پکڑکے اس کے وسوسہ کے کنویں میں اتر گئے رسى ٹوٹ گئی اور انہیں نہ صرف آب حیات ہاتھ نہ آیا بلکہ خدا کى نافرمانى کے گرداب میں گرفتار ہوگئے ان تمام مطالب کو قرآن کریم نے اپنے ایک جملے میں خلاصہ کردیا ہے ارشاد ہوتا ہے:''اس طرح سے شیطان نے انہیں دھوکا دیا اور اس نے اپنى رسى سے انہیں کنویں میں اتار دیا ''_(1)
ادم کو چاہئے تھا کہ شیطان کے سابقہ دشمنى اور خدا کى وسیع حکمت ورحمت کے علم کى بناپر اس کے جال کو پارہ پارہ کردیتے اور اس کے کہنے میں نہ آتے لیکن جو کچھ نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوگیا _
''بس جیسے ہى آدم وحوانے اس ممنوعہ درخت سے چکھا، فوراً ہى ان کے کپڑے ان کے بدن سے نیچے گرگئے اور ان کے اندام ظاہرہوگئے''_(2)
مذکورہ بالا جملے سے یہ بخوبى ظاہر ہوتا ہے کہ درخت ممنوع سے چکھنے کے ساتھ ہى فوراً اس کابرا اثر ظاہر ہوگیا اور وہ اپنے بہشتى لباس سے جوفى الحقیقت خدا کى کرامت واحترام کا لباس تھا، محروم ہو کر برہنہ ہوگئے _
اس جملہ سے اچھى طرح ظاہر ہوتا ہے کہ آدم وحوایہ مخالفت کرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلکہ کپڑے پہنے ہوئے تھے ، اگر چہ قرآن میں ان کپڑوں کى کوئی تفصیل بیان نہیں کى گئی لیکن جو کچھ بھى تھا وہ آدم وحوا کے وقار کے مطابق اور ان کے احترام کے لئے تھا ،جو ان کى نافرانى کے باعث ان سے واپس لے لیا گیا _
لیکن خود ساختہ توریت میں اس طرح سے ہے :
آدم وحوا اس موقع پربالکل برہنہ تھے لیکن اس برہنگى کى زشتى کو نہیں سمجھتے تھے، لیکن جس وقت انہوں نے اس درخت سے کھایا جو درحقیقت '' علم ودانش'' کا درخت تھا تو ان کى عقل کى آنکھیں کھل گئیں اور اب وہ اپنے کو برہنہ محسوس کرنے لگے اور اس حالت کى زشتى سے آگاہ ہوگئے_
جس '' آدم '' کا حال اس خود ساختہ توریت میں بیان کیا گیا ہے، وہ فى الحقیقت آدم واقعى نہ تھا بلکہ وہ تو کوئی ایسا نادان شخص تھا جو علم ودانش سے اس قدر دور تھا کہ اسے اپنے ننگا ہونے کا بھى احساس نہ تھا لیکن جس '' آدم ''کا تعارف قرآن کراتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اپنى حالت سے باخبر تا بلکہ اسرار آفرینش (علم اسما) سے بھى آگاہ تھا اور اس کا شمار معلم ملکوت میں ہوتا تھا، اگر شیطان اس پر اثرانداز بھى ہوا تویہ اس کى نادانى کى وجہ سے نہ تھا، بلکہ اس نے ان کى پاکى اور صفائے نیت سے سوئے استفادہ کیا _
اس بات کى تائید کلام الہى کے اس قول سے بھى ہوتى ہے:
''اے اولاد آدم : کہیں شیطان تمہیں اس طرح فریب نہ دے جس طرح تمہارے والدین (آدم وحوا) کو دھوکا دے کر بہشت سے باہر نکال دیا اور ان کا لباس ان سے جدا کردیا ''_(3)
 اگرچہ بعض مفسرین اسلام نے یہ لکھا ہے کہ آغاز میں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً یہ ایک واضح اشتباہ ہے جو توریت کى تحریرکى وجہ سے پیدا ہوا ہے_
بہرحال اس کے بعد قرآن کہتا ہے : '' جس وقت آدم وحوا نے یہ دیکھاتو فوراًبہشت کے درختوں کے پتوں سے اپنى شرم گاہ چھپانے لگے _
اس موقع پر خدا کى طرف سے یہ ندا آئی:'' کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا کیا میںنے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، تم نے کس لئے میرے حکم کو بھلادیا اور اس پست گرداب میں گھر گئے ؟(4)

 


(1)سورہ اعراف آیت 22
(2)سورہ اعراف آیت 22
(3)سورہ اعراف آیت 27

(4)سورہ اعراف آیت 22

 

 

شیطان کا وسوسہ شجرہ ممنوعہ کونسادرخت تھا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma