قرآن میں ان بہانہ جو اورا فسانہ ساز افراد کو حضرت نوح(ع) کى طرف سے دیئے گئے جوابات ذکرکیے گئے ہیں پہلے ارشاد ہوتا ہے:
اے قوم :'' میں اپنے پرورد گار کى طرف سے واضح دلیل اور معجزہ کا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت وپیغام کى انجام دہى کى وجہ سے اپنى رحمت میرے شامل حال کى ہے اور یہ امر اگر عدم توجہ کى وجہ سے تم سے مخفى ہوتو کیا پھر بھى تم میرى رسالت کا انکار کرسکتے ہو اور میرى پیروى سے دست بردار ہوسکتے ہو''_(1)
یہ جواب قوم نوح(ع) کے مستکبرین کے تین سوالوں میں سے کس کے ساتھ مربوط ہے؟ مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے لیکن غور وخوض سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جامع جواب تینوں اعتراضات کا جواب بن سکتا ہے کیونکہ ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ تم انسان ہو آپ نے فرمایا یہ بجاہے کہ میں تمہارى طرح کا ہى انسان ہوں لیکن اللہ تعالى کى رحمت میرے شامل حال ہوئی ہے اور اس نے مجھے کھلى اورواضح نشانیاں دى ہیں اس بناء پر میرى انسانیت اس عظیم رسالت سے مانع نہیں ہوسکتى اور یہ ضرورى نہیں کہ میں فرشتہ ہوتا _
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تہارے پیروکار بے فکر اور ظاہر بین افراد ہیں _آپ نے فرمایا تم بے فکر اور بے سمجھ ہو جو اس واضح حقیقت کا انکار کرتے ہوحالانکہ میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں جو ہر حقیقت کے متلاشى انسان کے لئے کافى ہیں اور اسے قائل کرسکتے ہیں مگر تم جیسے افراد جو غرور ،خود خواہى ،تکبر اور جاہ طلبى کا پردہ اوڑھے ہوئے ہیں ان کى حقیقت بین آنکھ بیکار ہوچکى ہے _
ان کا تیسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے : ہم کوئی برترى اور فضیلت تمہارے لئے اپنى نسبت نہیں پاتے، آپ نے فرمایا: اس سے بالاترکون سى برترى ہوگى کہ خدانے اپنى رحمت میرے شامل حال کى ہے اور واضح مدارک ودلائل میرے اختیار میں دیئے ہیں اس بناء پر ایسى کوئی وجہ نہیں کہ تم مجھے جھوٹا خیال کرو کیونکہ میرى گفتگو کى نشانیاں ظاہر ہیں _
''کیا میں تمہیں اس ظاہر بظاہر بینہ کے قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم خود اس پر آمادہ نہیں ہو اور اسے قبول کرنا بلکہ اس کے بارے میں غوروفکر کرنا بھى پسند نہیں کرتے ہو'' _(1)
(1) سورہ ہو دآیت28