ان واقعات کاراز

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
فراق دوست ،زندگى کے سخت ترین ایامحضرت خضر کون تھے؟

جب حضرت موسى اور حضرت خضر کا جدا ہونا طے پاگیا تو ضرورى تھا کہ یہ الہى استاد اپنے ان کاموں کے اسرار ظاہر کرے کہ حضرت موسى جنھیں گوارانہیں کرپائے تھے درحقیقت ان سے ہمراہى کا فائدہ حضرت موسى علیہ السلام کے لئے یہى تھا کہ وہ ان تین عجیب واقعات کا راز سمجھ لیں اور یہى راز بہت سے مسائل کى تفہیم کے لئے کلیدبن سکتا تھا اور مختلف سوالوں کا جواب اس میں پنہاں تھا _
حضرت خضر(ع) نے کشتى والے واقعے سے بات شروع کى اور کہنے لگے : ''ہاں، تووہ کشتى والى بات یہ تھى کہ وہ چند غریب ومسکین افرادکى ملکیت تھى وہ اس سے دریا میں کام کرتے تھے میں نے سوچا کہ اس میں کوئی نقص ڈال دوں کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایک ظالم بادشاہ ان کے پیچھے ہے اور وہ ہر صحیح سالم کشتى کو زبردستى ہتھیالیتا ہے''_ (1)
گویا کشتى میں سوارخ کرنا ظاہرا تو برالگتا تھا لیکن اس کام میں ایک اہم مقصد پوشیدہ تھا اور وہ تھا کشتى کے غریب مالکوںکو ایک غاصب بادشاہ کے ظلم سے بچانا کیونکہ اس کے نزدیک عیب دار کشتیاںاس کے کام کى نہ تھیں اور ایسى کشتیوں پروہ قبضہ نہیں جماتا تھا خلاصہ یہ کہ یہ کام چند مسکینوں کے مفاد کى حفاظت کے لئے تھا اور اسے انجام پاناہى چاہئے تھا _
اس کے بعد حضرت خضر(ع) لڑکے قتل کے مسئلے کى طرف آتے ہیں کہتے ہیں : ''رہاوہ لڑکا، تو اس کے ماں باپ صاحب ایمان تھے ہمیں یہ بات اچھى نہ لگى کہ وہ اپنے ماں باپ کو راہ ایمان سے بھٹکادے اور سرکشى وکفر پر ابھارے _''(2)
بہرحال اس عالم نے اس لڑکے کو قتل کردیا اور اس لڑکے کے زندہ رہنے کى صورت میں اس کے ماں باب کو آئندہ جو ناگوار واقعات پیش آنے والے تھے انہیں اس قتل کى دلیل قرار دیا _
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ''ہم نے چاہا کہ ان کارب ان کو اس کے بدلے زیادہ پاک اور زیادہ پر محبت اولاد عطا فرمائے _''(3)
آخرى اور تیسرے کام یعنى دیوار بنانے کے واقعے کا جواب ہے ،اس عالم نے اس واقعے کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا: رہى دیوارکى بات _تو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کى تھى اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ چھپا ہوا تھا اور ان کا باپ ایک نیک اور صالح شخص تھا ،تیرا پروردگار چاہتا تھا کہ وہ بالغ ہوجائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں ،یہ تو تیرے رب کى طرف سے رحمت تھے_
اور ان کے نیک ماں باپ کى وجہ سے میں مامور تھا کہ اس دیوار کو تعمیر کروں کہ کہیں وہ گرنہ جائے اور خزانہ ظاہر ہوکر خطرے سے دوچار نہ ہوجائے_(4)
لہذا انہوں نے کہا : اور میں نے یہ کام خود سے نہیں کئے بلکہ اللہ کے حکم تحت انجام دیئے _(5)
جى ہاں : یہ تھے ان کاموں کے راز کہ جن پرصبر کى تم میں تاب نہیں تھى _(6)(7)
یہ وہ اہم ترین مسئلہ ہے جس نے بزرگ علماء کو اپنى طرف متوجہ کیا ہے تین واقعات کہ جو اس عالم کے ہاتھوں انجام پائے ان پر حضرت موسى نے اعتراض کیا کیونکہ وہ باطن امر سے آگاہ نہ تھے لیکن بعد میں استاد نے وضاحت کى تو مطمئن ہوگئے _
سوال یہ ہے کہ کیا واقعاً کسى کے مال میں اس کى اجازت کے بغیر نقص پیدا کیا جاسکتا ہے، کہ غاصب اسے لے نہ جائے _
اور کیا کسى لڑکے کو اس کام پر سزادى جاسکتى ہے جو وہ آئندہ میں انجام دے گا؟ --
اور کیا ضرورى ہے کہ کسى کے مال کى حفاظت کے لئے ہم مفت زحمت برداشت کریں _؟
ان سوالات کے جواب میں ہمارے سامنے دوراستے ہیں : پہلایہ کہ ان امور کو ہم فقہى احکام اور شرعى قوانین کى روشنى میں دیکھیں _بعض مفسرین نے یہى راستہ اختیا ر کیا ہے _
انہوں نے پہلے واقعے کو اہم اور اہم تر قوانین پر سمجھا ہے اور کہا ہے کہ مسلم ہے کہ سارى کشتى اور پورى کشتى کى حفاظت اہم کام تھا جبکہ جزوى نقص سے حفاظت زیادہ اہم نہیں تھا دوسرے لفظوں میں حضرت خضر (ع) نے کم نقصان کے ذریعے زیادہ نقصان کو روکا، فقہى زبان میں '' افسد کو فاسد سے دفع کیا'' خصوصا ًجبکہ یہ بات ان کے پیش نظر تھى کہ کشتى والوں کى باطن رضا مندى انہیں حاصل ہے کیونکہ اگر وہ اصل صورت حال سے آگاہ ہوجاتے تو اس کام پر راضى ہوجاتے (فقہى تعبیر کے مطابق حضرت خضر (ع) کو اس مسئلے میں '' اذن فحوى '' حاصل تھا)_
اس لڑکے کے بارے میں مفسرین کا اصرار ہے کہ یقیناً وہ بالغ تھا اور وہ مرتد یا فاسد تھا لہذا وہ اپنے موجودہ اعمال کى وجہ سے جائز القتل تھا اور یہ جو حضرت خضراپنے اقدام کے لئے اس کے آئندہ جرائم کو دلیل بناتے ہیں تو وہ اس بناء پر ہے کہ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ مجرم نہ صرف یہ کہ اس وقت اس کام میں مبتلا ہے بلکہ آئندہ بھى اس سے بڑھ کر جرائم کا مرتکب ہوگا لہذا اس کاقتل قوانین شریعت کے مطابق تھا اور وہ اپنے افعال اورخود کردہ گناہوں کى وجہ سے جائز القتل تھا _
رہا تیسرا واقعہ تو کوئی شخص کسى پر یہ اعتراض نہیں کرسکتا کہ تم دوسرے کے لئے کیوں ایثار کرتے ہو اور اس کے اموال کو بچانے کے لئے کیوں بیگار اٹھاتے ہو،ہوسکتا ہے یہ ایثار واجب نہ ہو لیکن مسلم ہے کہ یہ اچھا کام ہے اور لائق تحسین ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ بعض مواقع پر سرحد وجوب تک پہنچ جائے مثلاً کسى یتیم بچے کا بہت سامال ضائع ہو رہا ہو اور تھوڑى سى زحمت کرکے اسے بچایا جاسکے تو بعید نہیں ہے کہ ایسے موقع پریہ کام واجب ہو _
دوسرا راستہ اس بنیاد پر ہے کہ مذکورہ بالا تو ضیحات اگرچہ خزانے اور دیوار کے بارے میں لائق اطمینان ہوں لیکن جو جوان مارا گیا اس کے بارے میں مذکورہ وضاحتیں ظاہر قرآنى گفتگو سے مناسبت نہیں رکھتیں کیونکہ اس کے قتل کا قصدظاہرا اس کے آئندہ کا عمل قرار دیا گیا ہے نہ کہ موجودہ عمل _ کشتى کے بارے میں بھى مذکورہ وضاحت کسى حدتک قابل بحث ہے _  لہذا ضرورى ہے کہ کوئی اور راہ اختیار کى جائے اور وہ یہ ہے : اسى جہان میں ہمیں دو نظاموں سے سابقہ پڑتا ہے ایک نظام تکوین ہے اور دوسرا نظام تشریع یہ دونوں نظام اگرچہ کلى اصول میں تو ہم آہنگ ہیں لیکن کبھى ایسا ہوتا ہے کہ جزئیات میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں _
مثلا اللہ تعالى اپنے بندوں کى آزمائشے خوف، اموال وثمرات کے نقصان ، اپنى اور عزیزوں کى موت اور قتل کے ذریعے کرتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوکہ کون شخص ان حوادث ومصائب پر صبر وشکیبائی اختیار کرتا ہے _
تو کیا کوئی فقیہ بلکہ کوئی پیغمبر ایسا کرسکتا ہے _یعنى اموال ونفوس، ثمرات اور امن کو ختم کرکے لوگوں کو آزمائے ؟
یا کبھى ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالى اپنے بعض نبیوں اور صالح بندوں کو خبر دار کرنے اور انہیں تنبیہ کرنے کے لئے کسى ترک اولى پر بڑى مصیبتوں میں گرفتار کرتاہے جیسا کہ حضرت یعقوب مصیبت میں گرفتار ہوئے اس بات پر کہ انہوں نے بعض مساکین کى طرف کم توجہ دى یا حضرت یونس کو ایک معمولى ترک اولى پر مصیبت میں گرفتار ہونا پڑا تو کیا کوئی حق رکھتا ہے کہ کسى کو سزا کے طور پر ایسا کرے یا یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کبھى اللہ تعالى کسى انسان کى ناشکرى کى وجہ سے اس سے کوئی نعمت چھین لیتا ہے مثلاً کوئی شخص مال ملنے پر شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا مال دریا میں غرق ہوجاتاہے یا صحت پر شکر ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالى اس سے صحت لے لیتا ہے تو کیا فقہى اور شرعى قوانین کى رو سے کوئی ایسا کرسکتا ہے کہ ناشکرى کى وجہ سے کسى کا مال ضائع کردے اور اس کى مثالیں مجموعى طور پر ظاہر کرتى ہیں کہ جہان آفرینش خصوصا خلقت انسان اس احسن نظام پر استوار ہے کہ اللہ نے انسان کو کمال تک پہنچا نے کے لئے کچھ تکوینى قوانین بنائے ہیں کہ جن کى خلاف ورزى سے مختلف نتائج مرتب ہوتے ہیں حالانکہ قانوں شریعت کے لحاظ سے ہم ان قوانین پر عمل نہیں کرسکتے _
مثلاً کسى انسان کى انگلى ڈاکڑ اس لئے کاٹ سکتا ہے کہ زہراس کے دل کى طرف سرایت نہ کرجائے لیکن کیا کوئی شخص کسى انسان میں صبر پیدا کرنے کے لئے یا کفران نعمت کى وجہ سے اس کى انگلى کاٹ سکتا ہے ؟(جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ خدا ایسا کرسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنا نظام احسن کے مطابق ہے )
اب جبکہ ثابت ہوگیا کہ ہم دو نظام رکھتے ہیں اور اللہ تعالى دونوں نظاموں پر حاکم ہے تو کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اللہ ایک گروہ کو نظام تشریعى کو عملى شکل دینے پر مامور کرے اورفرشتوں کے ایک گروہ یا بعض انسانوں کو (مثلا حضرت خضر کو )نظام تکوین کو عملى شکل دینے پر مامور کرے _
اللہ تعالى کے نظام تکوین کے لحاظ سے کوئی مانع نہیں کہ وہ کسى نابالغ بچے کو بھى کسى حادثے میں مبتلا کر دے اور اس میں اس کى جان چلى جائے کیونکہ ہوسکتا ہے اس کا وجود مستقبل کے لئے بہت بڑے خطرات کاباعث ہو، نیز کوئی مانع نہیں کہ اللہ --
 


(1)سورہ کہف آیت79
(2)سورہ کہف آیت80

(3)سورہ کہف آیت 81
(4)سورہ کہف آیت82
(5)سورہ کہف آیت82
(6)سورہ کہف آیت82
(7)خضر کى ماموریت تشریعى تھى یا تکوینى ؟

 

 

 

فراق دوست ،زندگى کے سخت ترین ایامحضرت خضر کون تھے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma