ذوالقرنین نے دیوار کیسے بنائی؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
قصص قرآن
ذوالقرنین کى عجیب کہانیذوالقرنین کون تھے؟

قرآن میں حضرت ذوالقرنین(ع) کے ایک اور سفر کى طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
''اس کے بعد اس نے حاصل وسائل سے پھر استفادہ کیا''_(1)
''اور اس طرح اپنا سفر جارى رکھا یہاں تک کہ وہ دوپہاڑوں کے درمیان پہنچا وہاں ان دوگروہوں سے مختلف ایک اور گروہ کو دیکھا_ یہ لوگ کوئی بات نہیں سمجھتے تھے''_(2)
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کوہستانى علاقے میں جاپہنچے_مشرق اور مغرب کے علاقے میں وہ جیسے لوگوں سے ملے تھے یہاں ان سے مختلف لوگ تھے،یہ لوگ انسانى تمدن کے اعتبار سے بہت ہى پسماندہ تھے کیونکہ انسانى تمدن کیسب سے واضح مظہر انسان کى گفتگو ہے_(3)
اس وقت یہ لوگ یاجوج ماجوج نامى خونخوار اور سخت دشمن سے بہت تنگ اور مصیبت میںتھے_ ذوالقرنین کہ جو عظیم قدرتى وسائل کے حامل تھے،ان کے پاس پہنچے تو انہیں بڑى تسلى ہوئی _انہوں نے ان کا دامن پکڑلیا اور''کہنے لگے:اے ذوالقرنینیاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد کرتے ہیں_کیا ممکن ہے کہ خرچ آپ کو ہم دے دیںاور آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں''_(4)
وہ ذوالقرنین کى زبان تو نہیں سمجھتے تھے اس لئے ہوسکتا ہے یہ بات انہوں نے اشارے سے کى ہو یا پھر ٹوٹى پھوٹى زبان میں اظہار مدعا کیا ہو_(5)
بہر حال اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کى اقتصادى حالت اچھى تھى لیکن سوچ بچار، منصوبہ بندی، اور صنعت کے لحاظ سے وہ کمزور تھے_لہذا وہ اس بات پر تیار تھے کہ اس اہم دیوار کے اخراجات اپنے ذمہ لے لیں، اس شرط کے ساتھ ذوالقرنین نے اس کى منصوبہ بندى اور تعمیر کى ذمہ دارى قبول کرلیں_
اس پر ذوالقرنین نے انہیں جواب دیا:''یہ تم نے کیا کہا؟اللہ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے،وہ اس سے بہتر ہے کہ جو تم مجھے دینا چاہتے''_(6)
اور میں تمہارى مالى امداد کا محتاج نہیں ہوں_
''تم قوت و طاقت کے ذریعے میرى مدد کرو تا کہ میں تمہارے اور ان دو مفسد قوموں کے درمیان مضبوط اور مستحکم دیوار بنادوں''_(7)
پھر ذوالقرنین نے حکم دیا:''لوہے کى بڑى بڑیسلیں میرے پاس لے آئو''_(8)
جب لوہے کیسلیں آگئیں تو انہیں ایک دوسرے پر چننے کا حکم دیا''یہاں تک کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کى جگہ پورى طرح چھپ گئی''_(9)
تیسرا حکم ذوالقرنین نے یہ دیا کہ آگ لگانے کا مواد (ایندھن وغیرہ)لے آئو اور اسے اس دیوار کے دونوں طرف رکھ دو اور اپنے پاس موجود وسائل سے آگ بھڑکائو اور اس میں دھونکو یہاں تک کہ لوہے کیسلیں انگاروں کى طرح سرخ ہوکر آخر پگھل جائیں_(10)
درحقیقت وہ اس طرح لوہے کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑکر ایک کردینا چاہتے تھے_ یہى کام آج کل خاص مشینوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے، لوہے کیسلوں کو اتنى حرارت دى گئی کہ وہ نرم ہوکر ایک دوسرے سے مل گئیں_
پھر ذوالقرنین نے آخرى حکم دیا:''کہا کہ پگھلا ہوا تانبا لے آئو تاکہ اسے اس دیوار کے اوپرڈال دوں''_(11)
اس طرح اس لوہے کى دیوار پر تانبے کا لیپ کرکے اسے ہوا کے اثر سے اور خراب ہونے سے محفوظ کردیا_بعض مفسرین نے یہ بھى کہا ہے کہ موجودہ سائنس کے مطابق اگر تانبے کى کچھ مقدار لوہے میں ملادى جائے تو اس کى مضبوطى بہت زیادہ ہوجاتى ہے_ ذوالقرنین چونکہ اس حقیقت سے آگاہ تھے اس لئے انہوں نے یہ کام کیا_آخر کار یہ دیوار اتنى مضبوط ہوگئی کہ اب وہ مفسد لوگ نہ اس کے اوپر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے_(12)
یہاں پرذوالقرنین نے بہت اہم کا م انجام دیا تھا_مستکبرین کى روش تو یہ ہے کہ ایسا کام کرکے وہ بہت فخر وناز کرتے ہیں یا احسان جتلاتے ہیں لیکن ذوالقرنین چونکہ مرد خدا تھے_
'' لہذا انتہائی ادب کے ساتھ کہنے لگے:یہ میرے رب کى رحمت ہے''_(13)
اگر میرے پاس ایسا اہم کام کرنے کے لئے علم و آگاہى ہے تو یہ خدا کى طرف سے ہے اور اگر مجھ میں کوئی طاقت ہے اور میں بات کرسکتا ہوں تو وہ بھیس کى طرف سے ہے اور اگر یہ چیزیں اور ان کا ڈھالنا میرے اختیار میں ہے تو یہ بھى پروردگار کى وسیع رحمت کى برکت ہے میرے پاس کچھ بھى میرى اپنى طرف سے نہیں ہے کہ جس پر میں فخر و ناز کروں اور میں نے کوئی خاص کا م بھى نہیں کیا کہ اللہ کے بندوں پر احسان جتاتا پھروں_ اس کے بعد مزید کہنے لگے:''یہ نہ سمجھنا کہ یہ کوئی دائمى دیوار ہے''جب میرے پروردگار کا حکم آگیا تو یہ درہم برہم ہوجائے گى اور زمین بالکل ہموار ہوجائے گى ،اور میرے رب کا وعدہ حق ہے''_(14)
یہ کہہ کر ذوالقرنین نے اس امر کى طرف اشارہ کیا کہ اختتام دنیا اور قیا مت کے موقع پر یہ سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا_


(1)سورہ کہف آیت96
(2)سورہ کہف آیت 97
(3)سورہ کہف آیت97
(4)سورہ کہف آیت 98
(5)سورہ کہف آیت 95
(6)سورہ کہف آیت96
(7)سورہ کہف آیت96
(8)سورہ کہف آیت96
(9)سورہ کہف آیت96

(10)سورہ کہف آیت92
(11)سورہ کہف آیت93
(12)بعض نے یہ احتمال بھى ذکر کیا ہے کہ یہ مراد نہیں کہ وہ مشہور زبانوں میں سے کسى کو جانتے نہیں تھے بلکہ وہ بات کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے یعنى فکرى لحاظ سے وہ بہت پسماندہ تھے_
(13)سورہ کہف آیت94
(14)یہ احتمال بھى ذکر کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان مترجمین کے ذریعے بات چیت ہوئی ہو یا پھر خدائی الہام کے ذریعے حضرت سلیمان نے ان کى بات سمجھى ہو جیسے حضرت ذوالقرنین بعض پرندوں سے بات کرلیا کرتے تھے_

 

 

ذوالقرنین کى عجیب کہانیذوالقرنین کون تھے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma