اسى دوران پیغمبر(ص) نے عمر سے فرمایا: کہ وہ مکہ جائیں ، او ر اشراف قریش کو اس سفرکے مقصد سے آگاہ کریں ،عمر نے کہاقریش مجھ سے شدید دشمنى رکھتے ہیں ،لہذامجھے ان سے خطرہ ہے ، بہتر یہ ہے کہ عثمان کو اس کام کے لئے بھیجا جائے ،عثمان مکہ کى طرف آئے ،تھوڑى دیر نہ گذرى تھى کہ مسلمانوں کے ورمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ ان کو قتل کر دیاہے _ اس مو قع پرپیغمبر(ص) نے شدت عمل کا ارادہ کیا او رایک درخت کے نیچے جو وہاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بیعت لى جو ''بیعت رضوان'' کے نام سے مشہو رہوئی ،او ران کے ساتھ عہد وپیمان کیا کہ آخرى سانس تک ڈٹیں گے،لیکن تھوڑى دیر نہ گذرى تھى کہ عثمان صحیح و سالم واپس لوٹ آئے او رانکے پیچھے پیچھے قریش نے''سہیل بن عمر''کو مصالحت کے لئے پیغمبر (ص) کى خدمت میں بھیجا ،لیکن تاکید کى کہ اس سال کسى طرح بھى آپ(ص) کا مکہ میںورود ممکن نہیں ہے _
بہت زیادہ بحث و گفتگو کے بعد صلح کا عہد و پیمان ہوا،جس کى ایک شق یہ تھى کہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رہیں او ر آئندہ سال مکہ میں آئیں،اس شرط کے ساتھ کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ رہیں ،او رمسافرت کے عام ہتھیارکے علاوہ او رکوئی اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائیں_اورمتعددمواد جن کا دارومداران مسلمانوںکى جان و مال کى امنیت پر تھا،جو مدینہ سے مکہ میں واردہوں،او راسى طرح مسلمانوں اورمشرکین کے درمیان دس سال جنگ نہ کرنے او رمکہ میں رہنے والے مسلمانوںکے لئے مذہبى فرائض کى انجام دہى بھى شامل کى گئی تھی_
یہ پیمان حقیقت میں ہر جہت سے ایک عدم تعرض کا عہد و پیمان تھا ،جس نے مسلمانوںاو رمشرکین کے درمیان مسلسل اوربار با رکى جنگوں کو وقتى طور پر ختم کردیا _