مسئلہ ۱۶۶۲: زکوة میں قصد قربت شرط ہے یعنی فرمان خداوند ہی کی اطاعت کے لئے بجالائے اور اپنی نیت میں معین کرے کہ یہ مال کی زکوة ہے یا فطرہ ہے لیکن اگر اس پر گیہوں، جو اور دوسرے اموال کی زکوة واجب ہو تو نیت میں معین کرنا ضروری نہیں ہے کہ کس کی زکوة ہے۔
مسئلہ ۱۶۶۳: جس کے او پر کئی مال کے زکوة واجب ہو اگر وہ تھوڑی سی زکوة دے اور کسی کی نیت نہ کرے تو زکوة میں دی ہوئی چیز اگر کسی کے ہم جنس ہو تو اسی کی زکوة شمار ہوگی اور اگر کسی کی جنس سے نہ ہو تو سب پر تقسیم ہوگی مثلا اگر کسی نے ایک بھیڑ زکوة میں دی تو وہ بھیڑ کی زکوة شمار ہوگی اور اگر چاندی کا سکہ دے اور اس کے ذمہ بھیڑ اور گائے کی زکوة ہو تو وہ چاندی کا سکہ دونوں کی زکوة پر برابر تقسیم ہوگا۔
مسئلہ ۱۶۶۴: جس شخص نے کسی کو مال کی زکوة دینے کے لئے وکیل کردیا ہو تو اگر مالک کی نیت ہے تو کافی ہے وکیل نیت کرے یا نہ کرے۔ لیکن اگر مالک نیت نہ کرے بلکہ تمام چیزوں کی وکالت کسی کو دیدی ہو تو پھر وکیل کو نیت کرنا جاہئے۔
مسئلہ ۱۶۶۵: اگر کوئی اپنی مرضی سے زکوة نہ دے تو حاکم شرع اس سے جبرا زکوة کو وصول کرسکتا ہے اور یہ زکوة شمار ہوگی یہاں قصد قربت ساقط ہے۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ حاکم شرع قصد قربت کرے۔