تقلید کے احکام 20-1

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
توضیح المسائل
پانی کے احکام22-21

مسئلہ ۱ : کوئی بھی مسلمان اصول دین میں تقلید نہیں کرسکتا۔ بلکہ اصول دین کو ”اپنی حسب حیثیت“ دلیل سے جاننا چاہئے۔ لیکن فروع دین میں (یعنی عملی احکام و دستور میں) اگر مجتہد ہے (یعنی احکام الہی کو دلیل سے خود حاصل کرسکتا ہے) تو اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرے۔ اور اگر مجتہد نہیں ہے تو چاہئے کہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کرے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے لوگ جس چیز میں مہارت نہیں رکھتے تو اس چیز کے ماہر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ احتیاط پر بھی عمل کرسکتا ہے یعنی اپنے اعمال کو اس طرح بجالائے کہ اس کو یقین ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے۔ مثلا اگر کسی چیز کو بعض مجتہدین حرام اور بعض مباح جانتے ہوںتو اس کو ترک کردے اور اگر بعض مجتہدین کسی کام کو واجب اور بعض مستحب کہتے ہوں تو اس کو لازما بجالائے۔ لیکن چونکہ احتیاط پر عمل کرنا مشکل ہے، اور فقہی مسائل میں وسیع اطلاعات کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی لئے زیادہ تر لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ مجتہدین کی طرف رجوع کریں اور ان ہی کی تقلید کریں۔
مسلہ ۲: احکام میں تقلید کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عمل کو مجتہد کے حکم کے مطابق بجالائے یعنی اپنے اعمال کو مجتہد کے دستور کا تابع کردے۔
مسئلہ ۳: ایسے مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے جس میں مندرجہ ذیل صفات موجود ہوں : مرد ہو، بالغ ہو، عاقل ہو، شیعہ اثناعشری ہو، حلال زادہ ہو، عادل ہو، (ان میں سے بعض صفات میں احتیاط واجب کی شرط ہے) عادل سے مراد وہ شخص ہے کہ جس کے باطن میں ایسا خوف خدا ہو جو اسے گناہ کبیرہ سے اور گناہ صغیرہ پر اصرار کرنے سے روکے۔
مسئلہ ۴: جن مسائل میں مجتہدین کے درمیان اختلاف نظر ہو ان مسائل میں اعلم کی تقلید کرنا چاہئے۔
مسئلہ ۵: مجتہد اور اعلم کی تین طریقوں سے شناخت کی جاسکتی ہے۔
۱۔ انسان خود اہل علم ہو اور مجتہد اعلم کی شناخت کرسکتا ہو۔
۲۔ اہل علم میں سے دو عادل کسی کے اعلم ہونے کی خبر دیں۔ بشرطیکہ دو دوسرے عالم ان کے خلاف گواہی نہ دیں۔
۳۔ اہل علم اور علمی محفلوں میں اتنا مشہور ہو کہ انسان کو اس کے اعلم ہونے کا یقین ہوجائے۔
مسئلہ ۶: اگر قطعی ویقینی طور سے اعلم کی شناخت ممکن نہ ہوسکے تو احتیاط یہ ہے کہ ایسے شخص کی تقلید کرے جس کے اعلم ہونے کا گمان رکھتا ہو اورا گر چند مجتہدین کے درمیان شک ہو اور کسی کو ترجیح نہ دے سکے تو ان میں سے جس کی چاہے تقلید کرسکتاہے۔
مسئلہ ۷: مجتہد کا فتوی معلوم کرنے کے چند طریقے ہیں:
۱۔ خود مجتہد سے سنے یا اس کے دستخط کو (تحریرکی صورت میں) دیکھے۔
۲۔ ایسے رسالہ عمیلہ میں دیکھے جو قابل اطمینان ہو۔
۳۔ ایسے شخص سے سنے جو قابل اعتماد ہو۔
۴۔ لوگوں کے درمیان اس طرح مشہور ہو کہ باعث اطمینان ہو۔
مسئلہ ۸: اگر یہ گمان ہوکہ مجتہد کا صراحتا فتوی موجود نہ ہو بلکہ کہے ”احتیاط یہ ہے کہ فلاں طریقہ سے عمل کیا جائے“ تو اس احتیاط کو احتیاط واجب کہتے ہیں۔ اس صورت میں مقلد کو اختیار ہے۔ چاہے اس احتیاط پر عمل کرے یا کسی دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرے اور اگر صراحتا فتوی دیا ہو مثلا کہا ہو کہ نماز کے لئے اقامت مستحب ہے اس کے بعد کہے احتیاط یہ ہے کہ ترک نہ کرے تو اس احتیاط کو احتیاط مستحب کہتے ہیں۔ احتیاط مستحب میں مقلد کو اختیار ہے چاہے عمل کرے یا نہ کرے اور اگر مجتہد کسی جگہ کہے ”محل تامل“ ہے یا ”محل اشکال“ ہے تو مقلد چاہے احتیاط پر عمل کرے یا دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرے لیکن اگر کہے ظاہرا ایسا ہے یا کہے فتوی یہ ہے تو اس قسم کی تعبیریں فتوی میں شمار ہوں گی اور مقلد کو اس پر لازما عمل کرنا چاہئے۔
جس مجتہد کی انسان تقلید کر رہا ہے اگر وہ مجتہد مرجائے تب بھی اس کی تقلید پرباقی رہنا جائز ہے بلکہ اگر مرنے والا اعلم رہا ہو تو اس کی تقلید پر باقی رہنا واجب ہے۔ بشرطیکہ اس کے فتوی پر عمل کرچکا ہو۔
مسئلہ ۱۱: بناء براحتیاط واجب مردہ مجتہد کی ابتداء تقلید کرنا جائز نہیں خواہ وہ اعلم رہا ہو۔
مسئلہ ۱۲: ہر شخص کو چاہئے کہ جن مسائل کی عموما ضرورت پڑتی ہے ان کو یاد کرے یا اس کے احتیاط کا طریقہ جانتا ہو۔
مسئلہ ۱۳: اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش آجائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو احتیاط پر عمل کرسکتا ہے اور اگر اس کا وقت گذر جانے کا خطرہ نہیں توصبر کرے۔ یہاں تک کہ کسی مجتہد تک رسائی ہو اور اگر مجتہد تک رسائی ممکن نہ ہو تو جس طرح صحت کا زیادہ احتمال ہو۔ اس پر عمل کرے۔ پھر بعد میں(معلوم)کرے اگر مجتہد کے فتوی کے مطابق تھا تو صحیح ہے ورنہ چاہئے کہ دوبارہ بجالائے۔
مسئلہ ۱۴: اگر کوئی ایک مدت تک بغیر تقلید کے اعمال بجالائے اس کے بعد تقلید کرے تو اگر اس کے سابق اعمال اس مجتہد کے فتوی کے مطابق رہے ہوں جس کی اب تقلید کی ہے تو صحیح ہیں ورنہ چاہئے کہ دوبارہ بجالائے یہی صورت اس وقت بھی ہے جب کافی تحقیق کے بغیر کسی مجتہد کی تقلید کرے۔
مسئلہ ۱۵: جب بھی کوئی کسی مجتہد کا فتوی بتانے میں غلطی کرے تو ضروری ہے کہ صحیح فتوی معلوم ہونے کے بعد صحیح فتوی بتلائے۔ اور اگر منبر سے اپنی تقریر کے دوران بیان کیا ہو تو چاہئے کہ متعدد دجگہوں پراس مسئلے کی تکرار کرے تاکہ جن لوگوں نے غلط سمجھا ہو ان کی غلطی دور ہوجائے البتہ اگر اس مجتہد کا فتوی بدل جائے تو تبدیلی کی اطلاع دینا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶: بناء براحتیاط واجب ایک مجتہد کی تقلید چھوڑ کر دوسرے مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ہاں اگر دوسرا مجتہد اعلم ہو تو تقلید بدلنا جائز ہے اور اکر بغیر تحقیق کے تقلید بدل دی ہے تو دوبارہ پہلے مجتہد کی طرف ر جوع کرنا چاہئے۔
مسئلہ ۱۷: اگر مجتہد کا فتوی بدل جائے تو جدید(نئے) فتوی پر عمل کرنا چاہئے اور پہلے فتوی کے مطابق جو اعمال بجالاچکا ہے (مثلا عبادات یا معاملات) وہ صحیح ہیں انہیں دوبارہ بجالانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اگر ایک مجتہد سے دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرے تو پہلے مجتہد کے فتوی کے مطابق بجالائے گئے اعمال کو دوبارہ بجالانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۸: اگر انسان ایک مدت تک تقلید کرے اور معلوم نہ ہو کہ اس کی تقلید صحیح ہے کہ نہیں تو گزشتہ اعمال درست ہیں۔ لیکن موجودہ اور آئندہ اعمال کے لئے صحیح تقلید ضروری ہے۔
مسئلہ ۱۹: اگر دو مجتہد برابر ہوں تو بعض مسائل میں ایک کی اور بعض میں دوسرے مجتہد کی تقلید کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ ۲۰ : جو شخص مجتہد نہیں ہے(یعنی مدارک سے احکام اور ان کے دلائل کے استنباط پر قادر نہ ہو) تو اس کا شرعی مسائل میں فتوی دینا یا اظہار نظر کرنا حرام ہے اور اگر بغیر اطلاع اظہار کرتا ہے تو جتنے لوگوں نے اس کے کہنے پر عمل کیا ہے سب کے اعمال کی ذمہ داری اس پر ہے۔

پانی کے احکام22-21
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma