مسئلہ ۱۴۶۲: سال میں دو دن روزہ رکھنا حرام ہے عید الفطر (شوال کی پہلی تاریخ کو) اور عید قربان (ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو)۔
مسئلہ ۱۴۶۳: عورت کے مستحبی روزہ رکھنے سے اگر شوہر کا حق بر باد ہوتا ہو تو شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتی بلکہ اگر شوہر کا حق ضائع نہ بھی ہوتا ہوتب بھی احتیاط واجب ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر مستحبی روزہ نہ رکھے۔ اسی طرح اولاد کا مستحبی روزہ اگر ماں باپ کی اذیت کا سبب ہو جائز نہیں ہے۔ لیکن ماں باپ سے روزہ کا اجازت لینا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۴۶۳: عورت کے مستحبی روزہ رکھنے سے اگر شوہر کا حق بر باد ہو تا ہو تو شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتی بلکہ اگر شوہر کا حق ضائع نہ بھی ہو تا ہوتب بھی احتیاط واجب ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر مستحبی روزہ نہ رکھے۔ اسی طرح اولاد کا مستحبی روزہ اگر ماں باپ کی اذیت کا سبب ہو جائز نہیں ہے۔ لیکن ماں باپ سے روزہ کی اجازت لینا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۴۶۴: جس کو معلوم ہو روزہ اس کے لئے نقصان وہ ہے تو وہ روزہ نہ رکھے اور اگر رکھے تو صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اگر یقین تو نہ ہو لیکن قابل توجہ احتمال ہو کہ روزہ نقصان دہ ہے تب بھی روزہ نہ رکھے خواہ یہ احتمال شخصی تجربہ حاصل ہو یا ڈاکٹر کہنے سے۔
مسئلہ ۱۴۶۵: اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے لیکن اس کے تجربہ سے ثابت ہے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو روزہ رکھے اور گر ضرر معلوم نہ ہو تو ایک دودن تجربہ کرکے دیکھے اس کے بعد او پروا لے قاعدہ کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ ۱۴۶۶: جس کا عقیدہ ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہیں ہے اور وہ روزہ رکھ لی اور مغرب کے بعد پتہ چلے کہ روزہ اس کے لئے مضر تھا تو احتیاط یہ ہے کہ اس کی قضا کرے۔
مسئلہ ۱۴۶۷: جس دن کے بارے میں شک ہو کہ آخری شعبان ہے پہلی رمضان اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو آخری شعبان کی نیت سے روزہ رکھے اور اگر پہلی رمضان کی نیت سے رکھے تو حرام اور حرام اور باطل ہے۔
مسئلہ ۱۴۶۸: بیان کئے گئے روزوں کے علاوہ بھی کچھ حرام روزے ہیں جن کا ذکر بڑی کتابوں میں ہے۔