طاقت کے مطابق ذمہ داری

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
خدایا !آخر ہم انسان ہیں

”وسع “کا لغوی معنی قدرت او رطاقت ہے ، اس بناء پر آیت اس عقلی حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ خد اکی طرف سے عائد ذمہ داریاں کبھی بشری طا قت سے ماوراء نہیں ہو سکتیں لہذاکہا جا سکتا ہے کہ یہ آیت تمام احکا م کی تفسیر اور حد بندی کرتی ہے ، تمام احکا م یہ خصوصیت رکھتے ہیں کہ وہ انسانی قد رت وطاقت کے مطابق ہیں ۔ایک کلیم وعادل فقط ایسا ہی قانو ن بنا سکتا ہے
ضمنی طور پر اس با ت سے اس حقیقت کی پھر تائید ہو جا تی ہے کہ احکا م شرعی کبھی حکم عقل کے منافی نہیں ہو سکتے ۔ حکم شرع اور حکم عقل ہمیشہ دوش بدوش رہتے ہیں
لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت “۔
دوسرا نکتہ یہ ہے انہی قونین واحکا م پر عمل سے انسانی سر نوشت مربوط ہے اس جملے کے مطابق ہر شخص اپنے نیک وبد عمل کانتیجہ حاصل کرے گا۔اس جہان میں اور آئندہ جہان میں اپنے کئے کاپھل پائے گا ۔ اس طرح لوگوں کو ان کی ذمہ داریاور ان کے اعمال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ اس طرح سے قرآن نے ان افسانوں پر خط بطلان کھینچ دیا ہے جن میں لوگوں کے اعمال سے بری قرار دیا گیا ہے یا بلا وجہ کسی کے اعمال کی جوابدہی کاذمہ دار دوسروں کوقرار دیا گیا ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ آیہ شریفہ میں نیک اعمال کے لیے لفظ ”کسب “اور برے اعمال کے لیے لفظ ”اکتساب “استعمال کیا ہے ۔ تعبیر کا اختلاف چاید اس لیے ہے کہ ”کسب “ان اعمال کے لیے بولا جا تا ہے جو بلا تکلف اور فطرت کے مطابق انجا م دیے جا تے ہیں جب کہ” اکتساب “ان اعمال کے ل؛یے استعمال ہو تا ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہوں اور یہ خود ا س بات کی دلیل ہے کہ نیک اعمال انسانی فطرت کے مطابق ہیں اوربرے اعمال ذاتی طور پر خلا ف فطرت ہیں
ان دونوں تعبیروں کے اختلاف کے با رے میں راغب اصفہانی نے ایک اور بات کہی ہے اوروہ بھی قابل غور ہے ۔ وہ یہ کہ ”کسب “ان کاموں کے لیے مخصوص ہے جن کا فائدہ فقط انسان کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے ، ان اعمال خیر کی طرح جن کا نتیجہ صرف انجا م دینے والے شخص کو نہیں پہنچتا بلکہ ممکن ہے کہ اس کے عزیزواقارب اور دوست احباب بھی اس میں شریک ہوں جب کہ ”اکتساب “ان مواقع پر بولا جا تاہے جہاں کا م کا اثر صرف کرنے والے تک محدود ہوا اور گناہ میں ایسا ہوتا ہے (البتہ توجہ رہے کہ یہ مفہوم اس وقت لیا جا جا تاہے جب ”کسب‘ ‘اور ” اکتساب “کو ایک دوسرے کے مد مقابل استعمال کیا جائے )۔
ربنا لا تواخذنا ٓان نسینا ٓاو اخطانا۔“
مومنین چونکہ لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت کے قانون کی روشنی میں سمجھتے ہیں کی ان کے مستقبل کا انحصار ان کے اپنے اچھے یا برے کردار پر منحصر ہے لہٰذا بارگاہ الٰہی میں خاص تضرع وزاری کے ساتھ اپنے رب کو پکا رتے ہیں ، اس ذات کو پکا ر تے ہیں جو ان کی پر ورش میں خاص لطف وکرم فرما تا ہے اور کہتے ہیں ( اے ہمارے پروردگا ر اگر ہم بھو ل اور خطا و اشتبا ہ سے دوچار ہو جائیں تواپنی وسیع رحمست سے تو ہمار ی لغزش سے در گزر اور ہمیںاس کے عذاب سے رہائی بخش ۔
خطا کے بدلے سزا
یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا ممکن ہے کہ پروردگار کسی کوبھو ل چوک پر سزا دے کہ ا س پر بھی درخوا ست کی گنجائش پیدا ہو ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات بھو ل چوک انسان کی اپنی سہل انگا ری کی وجہ سے ہو تی ہے اور مسلم ہے کہ بھو ل چوک کی وجہ سے انسان سے جوابدہی اور مسوٴلیت ختم ہو جا تی ۔ جیساکہ قرآن میں آیا ہے
فذوقوا بما نسیتم لقاء یومکم ھٰذا“۔
عذاب خدا کا ذائقہ چکھوکیو نکہ تم اس دن کو بھو ل گئے تھے ۔(سجدہ۔۱۴)
اس سے معلوم ہو اکہ وہ خطائیں جو اپنی سہل انگاری کی وجہ سے سرزدہوتی ہیں ،قابل سزا ہیں ۔
ایک او ربا ت جس کی طرف توجہ کرنا چاہیئے یہ ہے کہ نسیا ن اور خطا ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف ہیں لفظ ”خطا “عام طور پر ایسے کا موں کے لیے استعمال کیا جا تاہے جو غفلت یا انسان کی عدم توجہ کے با عث سر زد ہو تے ہیں ۔مثلا َکوئی شخص شکا ر کے لیے تیر ما رتا ہے اور اس کے ارادے کے بغیر کسی انسان کو جا لگتا ہے اور وہ زخمی ہو جا تا ہے۔لفظ ”نسیان “ایسے کا م کے لیے استعما ل کیاجا تا ہے جو انسان توجہ سے انجا م دے لیکن حقائق سے نا آشنا ہو ۔ مثلا کو ئی شخص بے گنا ہ وگنا ہگار سمجھتے ہو ئے سز ا دے ۔
ربنا ولا تحمل علینا ٓاصراََکما حملتہ علی الذین من قبلنا“۔
”اصر“کا معنی ہے کسی کو روک رکھنا۔ یہ لفظ ہر اس سنگین اور بھاری کا م کے لیے بھی استعما ل ہو تا ہے جو انسان کی فعالیت کو روک دے ۔ نیز ایسے عہدو پیما ن کے لیے بھی یہ لفظ بولا جا تا ہے جو انسان کو محدود کر دے اسی لیے عذاب اور سزا کو بھی کبھی کبھی ”اصر“کہتے ہیں ،
اس جملے میں مومنین خدا سے دو تقاضے اورکرتے ہیں :
پہلا یہ کہ ان پر دشوا ر ذمہ داریا ں عائد نہ کریں کیو نکہ ایسی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بعض اوقا ت اطاعت پروردگار کے خلاف کا م ہو جا تاہے ۔ احکام اسلام کے بارے میں ایسی ہی با ت پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے
بعثت الی الشریعةالسھلةالسمحة
میں ایسے دین کے ساتھ مبعو ث ہو ا ہوں جس پر عمل کرنا سب کے لیے سہل ہے۔
ممکن ہے اس مو قع پر سوال کیاجائے کہ اگر شریعت کا سہل ہونا اچھی چیز ہے تو پھر یہ گذشتہ اقوا م میں کیو ں نہیں تھا بلکہ ان کی نا فر ما نیوںکے بعد سز اکے طور پر انہیں شدائد کا سامنا کر نا پڑا ہے ۔جیسا کہ بنی اسرائیل پے در پے نا فرمانیوں کی وجہ سے کچھ حلا ل گوشتوں سے محروم ہو گئے تھے (انعام۱۴۶،نساء ۔ ۱۶۰)
دوسرا یہ کہ وہ طاقت فرسا آزما ئشوں اور ناقابل برداشت سزاوٴں سے محفوظ ہیں ”ربنا ولا تحملنا ما لاطاقةلنا بہ “۔ ”لا تحمل “گذشتہ جملے میں اور ”ولا تحمل “اس جملے میں شاید اسی بنا ء پر ہے کیو نکہ پہلی تعبیر مشکلا ت کے مواقع کے لئے اور دوسری طاقت فرسا مواقع کے لیے استعما ل ہوتی ہے ۔
واعف عنا و واغفرلنا وارحمنا “۔
لغت میں ”عفو “ کا معنی ہے ” کسی چیز کے اثر کومحو کرنا“ اور زیا دہ تر یہ لفظ گنا ہ کے اثرات کو محو کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ان میں طبیعی آثار بھی شامل ہیں اور سزا کے محو ہونے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے ”مغفرت “گناہ کے بدلے میں ملنے والی سزاسے صرف نظر کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا ء پر دونوں لفظوں کے استعمال سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ مومنین پروردگار سے چاہتے ہیں کہ وہ لغزشوں کے طبیعی اور تکوینی آثا ر ان کی روح سے محو کردے تاکہ وہ ان کے برے نتائج میں گرفتار نہ ہو ں اور یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی معینہ سزاوٴں سے بھی بچ جا ئیں اور پھر اس کی وسیع رحمت کی خواہش کرتے ہیں جو تمام چیزو ں پر محیط ہے
انت مو لٰنا فانصرنا علی القوم الکٰفرین
پھراپنی دعاوٴں کے آخری حصے میں خدا کو مو لا کہ کر پکارتے ہیں ۔ یعنی ایسی ذات جو ان کی سرپرستی اور پرورش کرتی ہے ۔ اور چاہتے ہیں کہ وہ انہیں ہر طرح کے دشمنوں کے مقابلے میں کا میا ب کرے ۔
 

خدایا !آخر ہم انسان ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma