اور اس ظلم سے آزادی کو اپنی نعمت شمار کیا ہے ۔ گویا وہ انسانوں کو ابھار رہا ہے کہ وہ کوشش کریں کہ ہر قیمت پر اپنی صحیح آزادی حاصل کریں اور اس کی حفاظت کر یں جیسا کہ حضرت علی اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
الموت فی حیاتکم مقھورین والحیاة فی موتکم قاھرین 1
زندہ رہنا اور زیر سرپرست ومغلوب رہنا موت ہے اور آزاد ی حاصل کرنے کے لئے موت انسان کی زندگی ہے ۔
آج کی دنیا کا گز شتہ زمانے سے فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں فرعون ایک خاص استبداد کے ساتھ مخالف گروہ کے بیٹوں اور مردوں کو قتل کر دیتا تھا اور ان کی بیٹیوں کو چھوڑ دیتا تھا ۔
لیکن آج کی دنیا میں دوسرے طریقوں سے افراد ِ انسانی کی روح ِ مردانگی کو قتل کردیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو گنا ہوں کی میں غرق لوگوں کی شہوات کی قید میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔
آخر کیوں فرعون بنی اسراعیل کے بیٹون کو قتل کرتا اور بیٹیوں کو زندہ رکھتا تھا ؟
یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں بعض مفسرین اس جرم اور ظلم کا سبب ایک خواب کو قرار دیتے ہیں جو فرعون نے دیکھا تھا لیکن اس کا مفصل جواب سورہ قصص کی آیت ۴ کے تحت پڑھیں گے اور آپ کو پتہ چلے گا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا سبب فقط ایک خواب نہ تھا جو فرعون نے دیکھا تھا بلکہ بنی اسرائیل کے طاقت ور ہونے اور حکومت چھین لینے کی وحشت و خوف بھی اس کا م کا مددگار عنصر تھا ۔
۵۰ واذ فرقنا بکم البحر فانجیناکم واغرقنا اٰل فرعون و انتم تنظرون
۵۰ ترجمہ
اور( اس وقت کو یاد کرو )جب ہم نے تمہارے لئے دریا شگافتہ کیا اور تمہیں تو نجات دے دی لیکن فرعونیوں کو غرق کر دیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے