انبیاء کی غرض بعثت:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
حضرت ابراہیم کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعبیر نوتعلیم مقدم ہے یا تربیت:

مندرجہ بالا آیات میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے پیغمبر اسلام کے ظہور کی دعا کے ساتھ ان کی بعثت کے تین مقاصد بیان کئے ہیں:۔ پہلا مقصد لوگوں کے سامنے آیات خدا کی تلاوت ہے۔ یہ در اصل ان آیات کے ذریعے لوگوں کو بیدار کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ یہ آیات عمدہ، جاذب نظر اور دلوں کو بھانے والی ہیں اور وحی کی صورت میں قلب پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں۔
 تلاوت کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبران آیات کے ذریعے خوابیدہ نفوس کو بیدار کرے۔ آیت میں لفظ (یتلو) استعمال ہواہے جس کا مادہ تلاوت سے ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے پے در پے لانا۔ جب عبارتوں کو ایک دوسرے کے بعد اور صحیح نظم و ترتیب سے پڑھیں تو عرب اسے تلاوت کہتے ہیں۔ لہذا منظم و پے در پے تلاوت در اصل تعلیم و تربیت کے لئے مقدمہ و تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔
 ۲۔ دوسرا مقصد تعلیم کتاب و حکمت شمار کیاگیاہے کیونکہ علم و آگاہی کے بغیر تربیت ممکن نہیں تربیت در اصل تیسرا مرحلہ ہے۔ کتاب و حکمت میں اس لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے کہ کتاب سے مراد آسمانی کتاب ہوا در حکمت سے مراد وہ علوم، اسرا و علل اور مقاصد احکام ہوں جن کی پیغمبر کی طرف سے تعلیم دی جاتی ہے۔
 ۳۔ تیسرا مقصد تزکیہ بیان کیا گیاہے۔ تزکیہ کا معنی لغت میں نشو و نما بھی بیان کیاگیاہے۔
 یہ نکتہ خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ انسانی علوم محدود ہیں اور ان میں بھی ہزاروں ابہام اور خطائیں موجود ہیں۔ انسان جو کچھ جانتا ہے اس کی صحت کا کامل یقین نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس سے پیشتر اپنے علوم کی غلطیاں دیکھ چکاہے۔
 یہ وہ مقام ہے جہاں اس ضرورت کا احساس ہوتاہے کہ پیغمبران خدا صحیح علوم جو ہر قسم کی غلطی سے مبرا ہو مبداء وحی سے حاصل کرکے لوگوں کے در میان تشریف لائیں تا کہ لوگوں کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور جو باتیں انہیں معلوم نہیں ان کی انہیں تعلیم دیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں اس کے بارے میں انہیں اطمینان دلائیں۔
 دوسری بات جس کا ذکر یہاں ضروری ہے یہ ہے کہ ہماری نصف شخصیت کی تشکیل عقل و خرد سے ہوتی ہے اور نصف شخصیت طبائع، میلانات اور خواہشات سے بنتی ہے۔ اس لئے ہمیں جتنی تعلیم کی ضرورت ہے اتنی ہی تربیت کی احتیاج ہے ہماری عقل و خرد کو بھی تکامل و ترقی کی ضرورت ہے اور ہمارے باطنی طبائع کو بھی صحیح تربیت و پرورش کے لئے رہبری کی ضرورت ہے۔ اسی لئے تو پیغمبر معلم بھی ہیں اور مربی بھی۔ تعلیم دینا بھی انہی کا کام ہے اور تربیت کرنا بھی۔
 

حضرت ابراہیم کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعبیر نوتعلیم مقدم ہے یا تربیت:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma