اہل سنت کہ مفتی اعظم نے شیعہ نظریہ تسلیم کرلیا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
یہاں دو نکات قابل توجہ ہیں:خدائی سرحدیں

خلیفہ دوم کے حکم کے با وجود یہ مسئلہ اہل سنت کے ہاں متفق علیہ نہیں رہا۔ اہل سنت کے بہت سے علماء نے دیگر علماء سے اختلاف کرتے ہوئے شیعہ نقطہ نظر کو انتخاب کیاہے۔ ان میں سے جامعہ الازہر کے سابق رئیس اور اہل سنت کے مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت لکھتے ہیں۔
میں ایک عرصہ تک مشرق کے کالج میں مذاہب کی تحقیق اور ان کے در میان موازنہ و مقایسہ میں مصروف رہا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ میں کئی ایک مسائل میں مختلف مذاہب کی آراء و نظریات کی طرف رجوع کرتا بہت سے مقامات پر میں نے شیعہ مذہب کے استدلالات کو محکم اور استوار دیکھا تو ان کے سامنے جھکا اور میں نے ان میں شیعہ نظریے کو انتخاب کرلیا۔
اس سلسلے میں چند مثالوں کے ذیل میں وہ مزید لکھتے ہیں:
ایک ہی مجلس کی تین طلاقیں اہل سنت کے چاروں مذاہب میں تین ہی شمار ہوتی ہیں۔ لیکن شیعہ امامیہ عقیدے کے مطابق وہ ایک سے زیادہ طلاقیں شمار نہیں ہوتیں اور چونکہ واقعا قانوں کی نظر (اور ظاہر آیات قرآن کی نظر) سے اہل سنت کا نظریہ فتوے کی حیثیت سے اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھاہے۱
” و لا یحل لکم ان تاخذوا مما ایتموہن شیئا“
گذشتہ جملے میں کہاجاچکاہے کہ علیحدگی احسان کی بنیاد پر ہونا چاہئیے زیر نظریہ جملہ گذشتہ جملے کی وضاحت بھی ہے اور ایک مستقل حکم بھی نیز یہ ان مواقع کے لیے ایک نمونہ بھی ہے جو احسان کی بنیاد پر علیحدگی کی تشریح کرتے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شوہر جو چیز حق مہر کے طور پر بیوی کودے چکاہے وہ واپس نہیں لے سکتا۔ سورہ نساء آیات ۲۰ و ۲۱ میں یہ حکم زیادہ تشریح کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔
”إِلاَّ اٴَنْ یَخَافَا اٴَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللهِ فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ یُقِیمَا حُدُودَ اللهِ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیمَا افْتَدَتْ بِہِ “
صرف ایک صورت میں حق مہر واپس لینے میں کوئی حرج نہیں اور وہ یہ کہ جب عورت خود ازدواجی زندگی کو جاری رکھنا نہ چاہتی ہو۔ اب اگر اس کے عدم میلان اور نفرت کی وجہ سے اندیشہ ہو کہ عورت اور مرد حدود الہی کی حفاظت نہ کرسکیں گے تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں کہ حق مہر (عوض کے طور پر) شوہر کودے دیاجائے تا کہ وہ عورت کو طلاق دے دے ۲
”تِلْکَ حُدُودُ اللهِ فَلاَتَعْتَدُوہَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللهِ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الظَّالِمُون
”تِلْک“ان احکام کی طرف اشارہ ہے جو گذشتہ جملوں میں بیان کیے جاچکے ہیں۔ حقیقت میں یہ احکام اجتماعی، اخلاقی اور فقہی نکات کا مجموعہ ہیں۔ جنہیں پروردگار نے اجتماعی روابط کے استحکام کے لیے وضع اور بیان فرمایاہے۔
زیر نظر جملے میں کہا گیاہے کہ اگر بعض لوگ افراط کا شکار ہوں اور ناجائز میلانات کی وجہ سے حدود الہی سے بے پرواہ ہوجائیں تو اُن کا شمار ستمگروں اور ظالموں میں ہوگا۔
یہ اشخاص کس پر ظلم کرتے ہیں؟ اس کی وضاحت اس آیت میں موجود نہیں البتہ سورہ طلاق کی پہلی آیت میں فرمایا گیاہے:
”من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ
جو شخص حدود خدا سے تجاوز کرتاہے و ہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتاہے
اور واقعا ایسا ہی ہے کیونکہ قانون خداوندی کی سرحدوں سے تجاوز کرنے کا نقصان سب سے پہلے تجاوز کر نے والوں ہی کو پہنچتاہے۔ کیونکہ اسی قانون کے سائے میں ان کے حقوق کی بھی حفاظت ہونا تھی۔ اب اگر قانون شکنی اور سرحد سے تجاوز کرنا رواج ہوجائے تو اس کا نقصان لوگوں کے دامن کو بھی آلے گا جنہوں نے اس کام میں پیش قدمی کی ہے۔



 

۱ رسالة الاسلام شمارہ، سال ۱۱، ص۱۰۸ بحوالہ حاشیہ کنز العرفان جلد ۲ ص۲۷۱
۲ اس طلاق کو طلاق قطع کہتے ہیں جس کی تفصیلات کتب فقہ میں مذکور ہیں۔

یہاں دو نکات قابل توجہ ہیں:خدائی سرحدیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma