جنسی ملاپ کی اجازت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ماہواری میں جنسی ملاپ کے نقصاناتجمع بین طهارت و توبه

”فاذا تطہرن فاتوہن من حیث امرکم اللہ“
جب وہ پاک ہو جائیں تو جس راہ سے خدا نے حکم دیاہے ان سے ملاپ کرو
آیت کا یہ حصہ حقیقت میں عورتوں سے جواز مباشرت کی وضاحت کے لیے ہے ”اذا تطہرن“سے معلوم ہوتاہے کہ ماہواری سے پاک ہوجانے پر ہی عورتوں سے مباشرت جائز ہے کیونکہ بہ جملہ خون حیض کو آلودگی قرار دینے کے بعد آیاہے یعنی جب وہ اس ناپاکی اور آلودگی سے پاک ہوجائیں تو حکم امتناعی ختم ہوجاتاہے۔”تطہرن“کا مفہوم ظاہرا عورتوں کا غسل کرلینا نہیں لیاجاسکتا کیونکہ آیت کی ابتداء میں وجوب غسل کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔
دوسرے لفظوں میں حتی یطہرن جو اس سے پہلے آیاہے کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ممنوعیت عورت کی ناپاکی کے زمانے میں ہے یعنی پاک ہوںنے کے بعد یہ ممنوعیت برطرف ہوجاتی ہے یہی مفہوم ہمارے بزرگ فقہاء نے فقہی مسائل میں لیا ہے۔ انہوں نے فتوی دیا ہے کہ خون سے پاک ہوجانے کے بعد غسل سے پہلے بھی جنسی ملاپ جائز ہے۔
مندرجہ بالا توضیح سے ثابت ہوچکاہے کہ لفظ تطہرن“ غسل کرنے پر دلالت نہیں کرتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ وجوب غسل تو ایک دوسری دلیل کے ذریعے ثابت ہواہے۔
”من حیث امرکم اللہ“ اس بعد والے حصے میں حکم دیاگیاہے: جس طریق سے خدا نے حکم دیاہے مباشرت کرو ۔ ہوسکتاہے یہ حصہ آیت کے گذشتہ حصے کی تاکید ہو یعنی صرف عورت کے پاک ہونے کی حالت میں مجامعت کرو۔ اس کے علاوہ نہ کرو۔
یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس کا زیادہ وسیع اور کلی مفہوم ہو یعنی پاک ہونے کے بعد بھی مباشرت کا عمل حکم پروردگار کی حدود کے اندر ہونا چاہئیے۔
ہوسکتاہے اس فرمان میں پروردگار کا تکوینی حکم بھی شامل ہو اور تشریعی بھی کیونکہ خدانے نوع انسانی کی بقا ء کے لیے دو مخالف صنفوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش رکھی ہے اس لیے جنسی ملاپ دونوں کے لیے ایک لذت رکھتاہے لیکن مسلم ہے کہ در حقیقت مقصد بقاء نسل تھا اور کشش اور لذت تو اس مقصد کے حصول کے لیے مقدمہ اور تمہید کی حیثیت سے ہے لہذا لذت جنسی کا حصول بقاء نسل کے حوالے سے ہی ہونا چاہئیے۔ اس بنا پر استمنا یعنی جنسی ملاپ کے علاوہ منی نکالنا اور لواطت یعنی مرد کا مرد سے بدکاری کرنا اور ایسے دیگر افعال جو اس تکوینی حکم سے انحراف قرا ر پاتے ہیں ممنوع ہیں کیونکہ وہ کسی طرح بھی جنسی ملاپ کے اصلی مقصد کو پورا نہیں کرتے جب کہ اس کے علاوہ بھی ان اعمال کے شدید نقصانات ہیں۔
”ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطہرین“
خدا توبہ کرنے والوں اور پاک بازوں کو دوست رکھتاہے۔
”توبہ“ کا معنی ہے گناہ سے پٹنا اور خدا کی نافرمانی سے پشیمان ہونا۔ توبہ کے تین بنیادی ارکان ہیں۔
۱۔ یہ جاننا کہ میں پہلے خدا کی نافرمانی کرچکاہوں۔
۲۔ اس عمل پر پشیمان اور نادم ہونا۔
۳۔ آئندہ اسے ترک کرنے کا عزم بالجزم کرنا اور جو ہوچکاہے اس کی تلافی اور ازالہ کرنا۔
کسی شخص میں یہ کیفیت پائی جائے تو اسے تائب کہتے ہیں اور اس کے عمل کو توبہ کہاجاتاہے (توبہ اور اس کی شرائط کے بارے میں مزید تشریح متعلقہ آیات میں بیان کی جاچکی ہے)۔
اس آیت میں تطہیر سے مراد گناہ سے آلودہ نہ ہونا اور اپنے آپ کو خدا کی نافرمانی سے بچانا ہے آیت کے آخر میں اس جملے کا استعمال ہوسکتاہے اس لیے کہ بعض لوگ اپنے کمزور مزاج پرضبط نہ کرتے ہوئے ایام حیض میں عورتیں سے عدم مباشرت کے خدائی حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھیں اور آلودہ گناہ ہوجائیں، بعد ازاں اپنے اس عمل پر اُن کی نظر پڑے تو وہ ناراحت اور افسردہ ہوں اور وہ اپنے تئیں غضب خدا کا حقدار سمجھیں تو ایسے میں یہ نہ ہو کہ انہیں اپنی بازگشت کا کوئی راستہ ہی سجھائی نہ دے اور وہ رحمت الہی سے مایوس ہوجائیں، اللہ تعالی متوجہ کرتاہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں تو کسی حد تک لطف خدا سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔ البتہ جو لوگ ابتداء ہی سے اپنے نفس پرضبط برقرار رکھیں اور اس گناہ سے پاک رہیں تو اُن گناہ سے پاک رہیں تو ان کے لیے پروردگار کے اس لطف و محبت کا حصہ زیادہ ہے۔
”نسآئکم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم“
اس آیت میں عورتوں کو کھیتی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ہوسکتاہے بعض لوگوں کے نزدیک یہ تشبیہ عورتوں کے بارے میں بوجھل ہو اور وہ سوچیں کہ اسلام نے آدھی انسانیت کے لیئے یہ لفظ کیوں استعمال کیاہے حالانکہ اس تشبیہ میں ایک باریک سانکتہ پنہاں ہے ۔ در حقیقت قرآن چاہتاہے کہ اس طرح سے عورت کو متعارف کر و اکر انسانی معاشرے میں اُس کے وجود کی ضرورت کو اجاگر کرے اور یہ واضح کرے کہ عورت فقط آتش شہوت کو سرد کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ نوع بشر کی بقا کا وسیلہ ہے۔
جیسے انسان اپنی بقاء کے لیے غذا کا محتاج ہے اور یہ احتیاج کا شتکاری اور زراعت کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی، اس طرح بقاء نوع انسانی عورت کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ بات اُن لوگوں کے لیے ایک تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے جو عورت کو ایک کھلونا اور ہوس پرستی کا ہدف سمجھے بیٹھے ہیں۔
”حرث“ مصدر ہے۔ یہ بیج ڈالنا“ کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ بعض اوقات زراعت کی جگہ مزرعہ کے مفہو م میں بھی بولاجاتاہے۔
لفظ ”انی“ اسماء شرط میں سے ہے اور زیادہ تر ”متی“کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے اور ”متی“کا معنی ہے ”زمانہ“ اس صورت میں اسے ”انی“ زمانیہ “ کہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ”مکان“ کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیہ ۳۷ میں ہے۔
” یَامَرْیَمُ اٴَنَّی لَکِ ہَذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللهِ“
حضرت زکری جب مریم کے پاس جاتے تو اُن کے پاس تیار شدہ کھانے دیکھتے تو پوچھتے ”ان لک ہذا“ یعنی یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آیا۔
جناب مریم  جواب دیتیں ”من عند اللہ“ یعنی خدا کے ہاں سے (مراد تھی جنت سے)۔
لفظ”انی “ اگر زمانی ہے تو عورتوں سے مباشرت کے وسیع زمانے کا مفہوم حاصل ہوگا۔ یعنی شب و روز، تمام اوقات میں اس کی اجازت دی گئی ہے اور اگر یہ مکانی ہو تو پھر مراد یہ ہوگی یہ مکان، مقام اور کیفیت تمام امور میں وسعت دی گئی ہے۔
”و قدموا لا نفسکم“
یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جنسی ملاپ کا اصل مقصد صرف حصول لذت اور تکمیل خواہش نہیں بلکہ صاحب ایمان افراد کو چاہئیے کہ وہ اس عمل سے لائق اور شائستہ اولاد کے حصول کی خواہش کریں اور پھر اس کی تربیت کی ذمہ داری پوری کریں اور اس مقدس تربیتی خدمت کو ایک معنوی سرمائے کے طور پر اپنے کل کے لیئے آگے بھیجیں۔ اس لیے قرآن تنبیہ کرتاہے کہ بیوی کے انتخاب میں ایسے اصول پیش نظر رکھیں جن کا نتیجہ اچھی اولاد کی پرورش اور عظیم اجتماعی و انسانی فرمائے کا حصول ہو پیغمبر اکرم سے ایک حدیث منقول ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایاہے۔
”یا مریم انی لک ہذا قالت ہو من عند اللہ“
حضرت زکری جب مریم کے پاس جاتے تو اُن کے پاس تیار شدہ کھانے دیکھتے تو پوچھتے ”انی لک ہذا“یعنی خدا کے ہاں سے (مراد تھی جنت سے)۔
لفظ ”انی“ اگر زمانی ہے تو عورتوں سے مباشرت کے وسیع زمانے کا مفہوم حاصل ہوگا۔ یعنی شب و روز، تمام اوقات میں اس کی اجازت دی گئی ہے اور اگر یہ مکانی ہو تو پھر مراد یہ ہوگی یہ مکان، مقام اور کیفیت تمام امور میں وسعت دی گئی ہے۔
”و قدموا لا نفسکم“
یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جنسی ملاپ کا اصل مقصد صرف حصول لذت اور تکمیل خواہش نہیں بلکہ صاحب ایمان افراد کو چاہئیے کہ وہ اس عمل سے لائق اور شائستہ اولاد کی حصول کی خواہش کریں اور پھر اس کی تربیت کی ذمہ داری پوری کریں اور اس مقدس تربیتی خدمت کو ایک معنوی سرمائے کے طور پر اپنے کل کے لیئے آگے بھیجیں۔ اس لیے قرآنی تنبیہ کرتاہے کہ بیوی کے انتخاب میں ایسے اصول پیش نظر رکھیں جن کا نتیجہ اچھی اولاد کی پرورش اور عظیم اجتماعی و انسانی فرمائے کا حصول ہو پیغمبر اکرم سے ایک حدیث منقول ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایاہے۔
”اذا مات الانسان انقطع عملہ الاعن ثلاث: صدقة جاریة و علم ینتفع بہ و ولد صالح یدعولہ“
جب انسان مرجاتاہے اس کا دفتر عمل بھی بند ہوجاتاہے۔ مرنے کے بعد انسان اپنے لیے کوئی بچت مہیا نہیں کرسکتا البتہ تین چیزیں ایسی ہیں جو موت کے بعد بھی اس کے لیے نتیجہ بخش ہوں گی۔
(۱) صدقہ جاریہ ، (۲) آثار علمی اور (۳) نیک اولاد کی تربیت
صدقہ جاریہ سے مراد ایسے آثار خیر ہیں جو اجتماعی فوائد کے لیئے استعمال ہوتے رہتے ہیں جیسے مسجد، مدرسہ، ہسپتال لائبریری یا ایسی دیگر چیزیں۔ آثار علمی سے مراد کتاب کی تالیف اور شاگردوں کی تربیت، نیک اولاد جو اپنے مال باپ کے لیے عملی یا زبانی طور پر طلب بخشش کرے ۔
”و اتقوا اللہ و اعلموا انکم ملا قوہ و بشر المؤمنین“
زیر نظر موضوع ۔۔۔ جنسی ملاپ۔۔۔ چونکہ بہت ہی اہم ہے اور انسائی غذائز میں سے سب سے زیادہ پر کشش غریزہ جنسی ہی ہے اس لیے اس جملے کے ذریعے خدا تعالی انسان کو جنسی ملاپ کے معاملے میں دقت نظر کی دعوت دیتاہے اور اپنے احکام کی طرف متوجہ کرتاہے اور فرماتاہے” و اتقوا اللہ“ یعنی اللہ کی نافرمانی سے ڈرو۔
 

ماہواری میں جنسی ملاپ کے نقصاناتجمع بین طهارت و توبه
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma