محلل کا عمل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
جدایی مشروط اسلام طلاق کے بارے میں وضع کردہ

 

محلل کا عمل یا نئی شادی کرنا ان طریقوں میں سے ایک ہے کیونکہ تین طلاقوں کے بعد عورت کا رسمی طور پر نکاح کرنا طلاق کے عمل کو جاری رکھنے کی راہ میں ایک بہت بڑا بند اور رکاوٹ ہے۔ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینا چاہے گا جب اس کے ذہن میں یہ خیال آئے گا کہ اس طرح اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوجائے گی تو اس کا ارادہ ضرور متزلزل ہوگا اور جب تک وہ مجبور نہ ہوگا اس قسم کا کام نہیںکرے گا۔ حقیقت میں محلل کا طریقہ جسے زیادہ صحیح لفظوں میں عورت کا دوسرے شوہر سے نیا نکاح کہا جاسکتاہے ، طلاق کے عمل میں ایک رکاوٹ ہے اور یہ ہوس پرست اور فریب کار مردوں کے لیے رکھا گیاہے تا کہ وہ عورت کو اپنی سرکش ہوس کا کھلونا نہ بنائیں اور قانون طلاق و رجوع سے لا محدود فائدہ نہ اٹھاتے رہیں۔
دوسرے نکاح کی شرائط مثلا اس کا دائمی ہونا یہ واضح کرتاہے کہ اس نئے رشتے کا مقصد یہ نہیں کہ اس کے ذریعہ پہلے شوہر اور بیوی کی پھر سے ملنے کا ذریعہ بن جائے۔ لہذا اس قانون سے غلط فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا اور نکاح موقت کے ذریعے رکاوٹ دور نہیں کی جاسکتی۔
بعض مفسرین نے ایک روایت نقل کی ہے جواس مفہوم کو بہت ہی واضح کردیتی ہے۔ اس روایت کے مطابق جو لوگ اس مسئلے کی انحرافی صورت پر عمل کرتے ہیں یعنی شادی اس مقصد کے لیے کرتے ہیں کہ عورت پہلے شوہر کے پاس واپس جاسکے وہ رحمت خدا سے دور ہیں۔
”لعل اللہ المحلل و المحلل لہ
خدا کی لعنت ہر محلل پر اور اُس پر جس کے لیے یہ محلل بناہے ۱
اس بناء پر یہ کہا جاسکتاہے کہ مقصد یہ تھا کہ تین طلاقوں کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں اور پھر اپنی مرضی سے نئی زندگی کی تشکیل کریں اور شادی جو بذات خود ایک مقدس امر ہے پہلے شوہر کے شیطانی رجحانات کا کھلونا نہ بن جائے۔
البتہ چونکہ اسلام ہمیشہ عاقلانہ خواہشات کا احترام کرتاہے اور اصلاح کے ہر دریچے سے استفادہ کرتاہے۔ لہذا ارشاد ہوتاہے: اگر یہ نیا رشتہ بھی ٹوٹ جائے اور سابق میاں بیوی دوبارہ ایک دوسرے سے تعلق پیدا کریں اور حتمی طور پر گھریلو فرائض کی انجام دہی کا پختہ ارادہ کرلیں تو پھر رجوع کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور یہ نیا نکاح تحریم کے حکم کو ختم کردے گا۔ اسی لیے اسے محلل کا نام دیاگیاہے۔
یہاں سے واضح ہوتاہے کہ محلل ایک بنیادی مسئلے اور حکم کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہاں نئے نکاح کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ آیت کے علاوہ روایات سے بھی واضح طور پر یہی معنی نکلتا ہے۔ ایک سرسری مطالعے سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوتاہے کہ یہاں پر بحث ایک حقیقی اور حتمی ازدواج کے بارے میں ہے لیکن اگر کوئی شخص پہلے ہی سے دائمی نکاح کا مقصد نہ رکھتا ہو اور صرف ظاہری طور پر ایسا کرے تا کہ محلل کی صورت پیدا ہوجائے تو یہ نکاح بے اثر ہے کیونکہ اس صورت میں دوسرا نکاح بھی پھرباطل ہوگا اور پہلا شوہر بھی سے عورت کے لیے حلال نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے مذکورہ حدیث ”لعل اللہ المحلل و المحلل لہ“ اسی قسم کے محلل کی طرف اشارہ ہو۔
۲۳۱۔وَإِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ اٴَجَلَہُنَّ فَاٴَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ اٴَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَتُمْسِکُوہُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلاَتَتَّخِذُوا آیَاتِ اللهِ ہُزُوًا وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ وَمَا اٴَنزَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُمْ بِہِ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ
ترجمہ
۲۳۱۔ جب عورتوں کو طلاق دو اور وہ عدت کے آخری دنوں کو پہنچ جائیں تو یا انہیں صحیح طریقے سے اپنے ہاں رکھ لو اور (ان سے صلح کرلو) اور یا انہیں پسندیدہ طریقے سے چھوڑ دو اور انہیں کسی طرح بھی نقصان پہنچانے اور ان سے زیادتی کرنے کے لیے ان سے صلح نہ کرو اور جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے ہی او پر ظلم کیا (اور ان اعمال اور قوانین سے غلط فائدہ اٹھاکر) آیات خدا کا مذاق نہ اڑاؤ اور اپنے اوپر نازل ہونے والی نعمت الہی، کتاب آسمانی اور علم و دانش کو یاد کرو اور انہیں ان کے ذریعے جو وعظ و نصیحت کی گئی ہے اسے یاد کرو اور خدا سے ڈرو اور جان لوکہ خدا ہر چیز سے آگاہ ہے (اور وہ ان لوگوں کی نیتوں سے باخبر ہے جو قوانین الہی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں)۔


 

 

۱ المنار : ج۲،

جدایی مشروط اسلام طلاق کے بارے میں وضع کردہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma