اس حدیث کا مضمون

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
وہ لوگ جو شب و روز اپنے اموال پنہاں و آشکار خرچ کرتے ہیں سود خوری قرآن کی نظر میں

اس حدیث کا مضمون اہل سنت کی کتب تفاسیر میںبھی نقل ہو ا ہے ۔ در منثور میں یہ حدیث ابن عساکر ،طبرانی میں ابو حاطم ،ابن جریر اور دیگر بہت سے مفسرین کے حوالے سے نقل کی گئی ہے
لیکن قرآن کا حکم حسب معمول ایک عمومی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس آیت میں انفاق کے طور طریقوں اور مختلف کیفیات کی تشریح کی گئی ہے اور انفاق کرنے والوں کی ذمہ داری کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ظاہر یا پوشیدہ طور پر خرچ کرتے وقت اخلاقی و اجتماعی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ جس پر خرچ کیا جا رہا ہے اس کی شخصی حیثیت کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے۔
جس مقام پر حاجتمند وں کی حفاظت آبرواور زیاد ہ خلوص مقتضی ہو کہ انفاق کو پوشیدہ رکھا جائے وہاں پوشیدہ ہی رہنا چاہئے اور جہاں دیگر مصالح مثلا شعائر مذہبی کی تعظیم اور دوسروں کو تشویق و ترغیب دلانا مقصود ہو اور کسی مسلمان کی ہتک حرمت بھی نہ ہوتی ہو وہاں ظاہری طور پر خرچ کرو ۔ ایسے افراد کو اجر اور اچھے بدلے کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے : ان کا اجر و ثواب خدا کے پاس ہے اور ان کے لیے کوئی وحشت و خوف اور غم و اندوہ نہیں ہے ”فلھم اجرھم عند ربھم  ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
ہم جانتے ہیںکہ انسان اپنی زندگی کو جاری و ساری رکھنے اور اس کو انتظام کرنے کے لیے اپنے آپ کو مال و دولت سے بے نیاز نہیں سمجھتا ۔ اس لیے جب اسے ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے تو حزن و ملال کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنی آئندہ زندگی کے لیے بھی پریشان ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے حالات آئندہ کیسے رہیںگے ۔ یہی خیال بہت سے مواقع پر اسے خرچ کرنے سے روک لیتا ہے ۔ مگر جو لوگ خدا کے وعدو ں پر ایمان رکھتے ہیں اور خرچ کرنے کے اجتماعی آثار کو بھی سمجھتے ہیں وہ راہ خدا میں خرچ کرنے سے مستقبل کے لیے کسی خوف و وحشت میں مبتلا نہیں ہوتے اور اپنی کچھ دولت خرچ کر دینے پر غمزدہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اس کے بدلے میں پروردگار کے ہاں کئی مراتب حاصل کریں گے اور اس کے بہت فضل سے بہرہ مند ہونگے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں اس دنیا میں اور آخرت میں اس عمل کے ذریعہ انفرادی ، اجتماعی اور اخلاقی برکات حاصل ہوں گی ۔
۲۷۵۔ الذین یا کلون الربٰوا لا یقومون الا کما یقوم الذین یتخبطہ الشیطان من المس ط ذٰلک بانھم قالو ا انما البیع مثل الربٰوا م و احل اللہ البیع و حرم الربٰو ط فمن جاء ہ مو عظة من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف ط و امرہ الی اللہ ط و من عاد فا لئک اصحب النار ھم فیھا خالدون
۲۷۶۔ یمحق اللہ الربٰو ا و یربی الصدقٰت ط واللہ لا یحب کل کفار اثیم ،
۲۷۷۔ ان الذین آمنوا و عملوا الصالحتٰ و اقامو االصلوٰة و آتو االذکوٰہ لھم اجرھم عند ربھم و لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
ترجمہ
۲۷۵۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ تو بس اس شخص کی طرح کھڑے ہوتے ہیں جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہو اور وہ اپنے اعتدال کو بر قرارنہ رکھ سکتا ہو ( کبھی زمین پر گر پڑتا ہو اور کبھی کھڑا ہو جاتا ہو ) یہ سب اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بیع بھی سود کی طرح ہے ( اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں جب کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ( کیونکہ دونو ں میں بہت فرق ہے ) اور اگر کسی تک خداتعالی کی طرف سے نصیحت پہنچ جائے اور وہ ( سود خوری سے) بچ جائے تو وہ سود ( جو اس کی حرمت کے حکم کے نازل ہونے سے) پہلے سے مل چکا ہے وہ اس کا مال ہے ( اور اس حکم میں گزشتہ مال شامل نہ ہوگا ) اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہوجائے گا ( اور وہ اس گذشتہ معاملے کو بخش دے گا ) لیکن جو لوگ لوٹ جائیں ( اور اس گناہ کا نئے سرے سے ارتکاب کریں وہ اہل آتش جہنم میں ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیںگے۔
۲۷۶۔ اللہ سود کو نابود کردے گا اور صدقات کو بڑھائے گا اور خدا کسی ناشکر گزار گنہ گار کو دوست نہیں رکھتا ۔
۲۷۷۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوںنے اچھے اعمال انجام دیے اور نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی ان کی اجرت و ثواب ان کے پروردگار کے پاس ہے ان کے لیے خوف ہے نہ وہ کسی حزن و ملال مین مبتلا ہوں گے۔

وہ لوگ جو شب و روز اپنے اموال پنہاں و آشکار خرچ کرتے ہیں سود خوری قرآن کی نظر میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma