نبوت، رسالت اور امامت میں فرق:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 امام کسے کہتے ہیں:  ظلم کسے کہتے ہیں؟:

آیات میں موجود اشارات اور احادیث میں وارد ہونے والی مختلف تعبیرات سے ظاہر ہوتاہے کہ خدا کی طرف سے مامور لوگ مختلف منصبوں پر فائز تھے:
۱۔ مقام نبوت۔ یعنی خدا کی طرف سے وحی حاصل کرنا۔ لہذا نبی وہ ہے جس پروحی نازل ہو اور جو کچھ وحی کے ذریعے معلوم ہو لوگ چاہیں تو انہیں بتادے۔
۲۔ مقام رسالت۔ یعنی مقام ابلاغ وحی، تبلیغ و نشر احکام الہی اور تعلیم و آگہی سے نفوس کی تربیت۔ لہذا رسول وہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ماموریت کے خطے میں جستجو اور کوشش کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور ہر ممکن ذریعے سے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے اور لوگوں تک اس کا فرمان پہنچائے۔
۳۔ مقام امامت۔ یعنی رہبری و پیشوائی اور امور مخلوق کی باگ ڈور سنبھالنا۔ در حقیقت امام وہ ہے جو حکومت الہی کی تشکیل کے لئے ضروری توانائیاںحاصل کرنے کی کوشش کرتاہے تا کہ احکام خدا کو عملا جاری اور نافذ کرسکے اور اگر فی الوقت با قاعدہ حکومت کی تشکیل ممکن نہ ہو تو جس قدر ہوسکے اجرائے احکام کی کوشش کرے۔
بہ الفاظ دیگر امام کا کام اور ذمہ داری احکام و قوانین الہی کا اجراء ہے جب کہ رسول کی ذمہ داری احکام الہی کا ابلاغ ہے۔ دو لفظوں میں یوں کہیے کہ رسول کا کام ارائة الطریق ہے اور امام کی ذمہ داری ایصال الی المطلوب ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ رسول اسلام کی طرح بہت سے پیغمبر تینوں عہدوں پر فائز تھے۔ وحی وصول کرتے فرامین خداوندی کی تبلیغ کرتے نیز تشکیل حکومت اور اجرائے احکام کی کوشش کرتے اور باطنی طور پر بھی نفوس کی تربیت کرتے تھے۔
مختصر یہ کہ امامت ہر جہت سے مقام رہبری کا نام ہے وہ مادی ہو یا معنوی، جسمانی ہو یا روحانی اور ظاہری یا باطنی ۔امام حکومت کا سر براہ، لوگوں کا پیشوا، مذہبی رہنما، اخلاق کا مربی اور باطنی ہدایت کا ذمہ دار ہوتاہے۔ اپنی مخفی اور معنوی قوت سے امام اہل افراد کی سیر تکامل( ۱)
کے لئے باطنی رہبری کرتاہے، اپنی علمی قدرت کے ذریعے نادان و جاہل افراد کو تعلیم دیتاہے اور اپنی حکومت کی طاقت سے یاد دیگرا جرائی طاقتوں سے اصول عدالت کا اجراء کرتاہے۔
(!) امامت یا حضرت ابراہیم کی آخری سیر تکامل: امامت کی حقیقت کے بارے میں ہم جو کچھ کہہ چکے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ممکن ہے کوئی شخصیت مقام تبلیغ و رسالت کی حامل ہو لیکن منصب امامت پر فائز نہ ہو۔ کیونکہ اس منصب کے لئے ہر پہلو سے بہت زیادہ اہلیت و لیاقت کی ضرورت ہے اور یہ وہ مقام ہے جسے ابراہیم تمام امتحانات کے بعد حاصل کرسکے اس سے ضمنا یہ بھی واضح ہوتاہے کہ امامت حضرت ابراہیم کے لئے سیر تکامل کی آخری منزل تھی۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ امامت کا مطلب ہے کسی شخص کا خود سے اہل اور نمونہ ہونا، تو حضرت ابراہیم مسلما آغاز نبوت سے ایسے ہے تھے اور جو سمجھتے ہیں کہ امامت کا مقصد دوسرے کے لئے نمونہ اور ماڈل ہوناہے تو یہ صفت ابراہیم بلکہ تمام انبیاء و مرسلین میں ابتدائے نبوت سے موجود ہوتی ہے اسی لئے تو سب کہتے ہیں کہ پیغمبر کو معصوم ہونا چاہئیے کیونکہ اس کے اعمال اور کر دار دوسروںکے لئے نمونہ قرار پاتے ہیں۔
ان سے ظاہر ہوا کہ مقام امامت ان چیزوں سے کہیں بلند ہے یہاں تک کہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے اور یہ وہ مقام و منصب ہے جو حضرت ابراہیم نے اس کی اہلبیت کا امتحان دینے کے بعد بارگاہ الہی سے حاصل کیا۔
زیر بحث آیت کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات میں بھی ایسے اشارات موجود ہیں جو ہماری بات پرشاہد ہیں:
۱۔ و جعلنھم آئمة یھدون بامرنا
اور ہم نے انہیں امام قرار دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں۔ (انبیا۔ ۷۳)
۲۔ و جعلنا منھم ائمة یھدون بامرنا لما صبروا
جب انہوں نے استقامت دکھائی تو ہم نے انہیں امام قرار دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں۔ (سجدہ۔۲۴)
پہلی آیت جو بعض انبیاء مرسلین کی طرف اشارہ کررہی ہے اور دوسری جس میں بنی اسرائیل کے کچھ انبیاء کا ذکر ہے نشاندہی کرتی ہیں کہ امامت کا تعلق ہمیشہ سے ایک خاص قسم کی ہدایت سے رہاہے جو فرمان خدا کے مطابق ہے۔


 

 

۱ ۔ سیر تکامل : ہر چیز کمالی کی طرف گامزن ہے۔ اس سفر کو اصطلاح میں سیر تکامل کہتے ہیں۔ (مترجم)

 امام کسے کہتے ہیں:  ظلم کسے کہتے ہیں؟:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma