ارتباط ایات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
درس یگانگی و اتحادحج رمز وحدت مسلمین جهان

مزید فرماتا ہے کہ خدا سے طلب مغفرت کرو اور زمانہ جاہلیت کے ان افکار و خیالات سے کنارہ کشی کر لو کیونکہ حج مساوات و برابری کا درس ہے اور یاد دلاتا ہے کہ خدا غفور رحیم ہے۔
۲۰۰۔
فَإِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللهَ کَذِکْرِکُمْ آبَائَکُمْ اٴَوْ اٴَشَدَّ ذِکْرًا فَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہُ فِی الآخِرَةِ مِنْ خَلاَق
۲۰۱۔
وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار
۲۰۲۔
اٴُوْلَئِکَ لَہُمْ نَصِیبٌ مِمَّا کَسَبُوا وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ
ترجمہ
۲۰۰۔اور جب اپنے مناسک (حج) انجام دے لو تو ذکر خدا کرو جیسے(زمانہ جاہلیت میں موہوم مفاخر پر فخر و مباھات کرتے ہوئے اپنے آباء کو یاد کرتے (رہے) ہو بلکہ اس سے بڑھ کر یہاں دو طرح کے لوگ ہیں ) بعض کہتے ہیں خدایا ہمیں دینا میں بھلائی عطا کر ، ایسے لوگوں :کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔
۲۰۱۔ بعض کہتے ہیں خداوند ہمیں دینا مےں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی اچھائی سے نواز اور ہمیں ( جہنم کی ) آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
۲۰۲۔ وہ اپنی کوشش (اور دعا) کاصلہ اور حصہ پائیں گے اور خدا جلد حساب چکا دینے والا ہے۔

تفسیر
امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مراسم حج کی انجام دہی کے بعد ایک اجتماع منعقد ہوا کر تا تھا اور لوگ اپنے باپ وادا کی طرف سے ملنے وا لے موہوم افتخارات خوب بیان کیا کر تے تھے ۔ قرآن متوجہ کرتا ہے کہ اعمال حج بجالا نے کے بعد خدا کو یاد کیا کرو اور اس عظیم اجتماع میں خدا اور اس کی وسیع و بے شمار نعمتوںپر گفتگو کیا کرو اور اپنے دلوں کہ اس کی جانب مائل کرو اور اس یاد خدا میں اتناتو شوق و شغف اور سوز و گداز ہو جتنا زمانہ جاہلیت میں اپنے اباء و اجداد کے فخر و مباہات کے ضمن میں ہو تا تھا بلکہ خدائے بزرگ و برتر کی بار ے میں تو زیادہ جوش و خروش اور گہرائی ہو ناچاہئیے۔
فا ذکروا اللہ کذ کرکم ابآئ کم او اشد ذکرا
ضمنی طور پر اس آیت سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ بزرگی اورعظمت خدا سے مربوط رہنے میں ہے نہ کہ اپنے آباء و اجداد کے موہوم مفاخر و مباہات سے وابستگی ہیں۔
فمن الناس من یقول
اس کی بعد قرآن دو گروہوں کی کیفیت کو واضح کرتا ہے اور ان کے افکار و فہم کا تذکرہ کرتا ہے ۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جو مادی منافع کے سوا کچھ نہیں دیکھتا اور ان کے علاوہ خدا سے کسی چیز کی درخواست نہیں کرتا اور وہ کہتا ہے
ربنا اتنا فی الدنیا حسنة ( خدا ہمیں دنیا کی نعمتیں بخش دے۔)
ایسے لوگوں کی معنویت و روحانیت میں کوئی حصہ نہیںاور آخرت میں ان کے نصیب میں کچھ نہیں ۔ یہ لوگ اس ابدی و باقی اور ہمیشہ رہنے والے جہاں سے بے بہرہ ہیں ۔ جہاں انسان کو ہر چیز کی ضرورت ہوگی۔
دو سرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جن کے افکار و نظریات فقط مادی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ حیات دنیا کو بھی معنوی تکامل و ارتقا کے لیے مقدمہ سمجھتے ہیں اور آخرت کے گھر کی سعادت کے بھی طلب گار ہیں ۔ یہ آیت در حقیقت اسلامی منطق کو مادی اور معنوی مسائل میںمشخص کر تی ہے اور جولوگ صرف مادیات میں ڈو بے ہو ئے ہیں انہیں ان لوگوں کی طرح مذموم قرار دیتی ہے جو دنیاوی زندگی پر کوئی نظر نہیں رکھتے نیز یہ آیت انسانوں کی اس جہان ہیں دردناک عذاب سے نجات بھی چاہتی ہے۔
و قنا عذاب النار
حسنہ کا معنی ہے نیکی ۔ اس کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ اس میں تمام مادی و معنوی نعمتیں شامل ہیں ۔ لیکن بعض احادیث میں حسنہ کے مفہوم کے بارے میں پیغمبر اسلام ﷺسے منقول ہے۔
و من اوتی قلبا شاکرا و لسانا ذاکرا و زوجة مومنة تعینة علی امر دنیا و اخرة فقد اوتی فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة و وقی عذاب النار ۔۱۔
جسے خدا شکر گزار دل دے ،یاد حق میں مشغول زبان بخشے اور صاحب ایمان بیوی عطا کرے جو امور دنیا و آخرت میں اس کی مدد گار ہو اسے دنیاو آخرت کی نیکی بخشی ہے اور آتش جہنم کے عذاب سے بچایا ہے۔
واضح ہے کہ اس حدیث میں عام مفہوم کے بعض خاص امور کے حوالے سے تفسیر کی گئی ہے اور ا س میں بعض واضح کی نشاند ہی کی گئی ہے نہ کہ منحصرا اس کا بس یہی مفہوم ہے۔
اولئک لہم نصیب مما کسبوا و اللہ سریع الحساب
گذشتہ بحث کے بعد اس آیت میں ہے کہ دو نوں گروہ اپنی کاوشوں کے نتیجے سے بہرہ ور ہوتی ہیں، وہ بھی جو خدا سے صرف دنیا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو دنیا و آخرت کے خواستگار ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی محروم نہیں ہوتا البتہ ہر ایک کا صلہ اس کی خواہش تک محدود ہے۔
حقیت میں یہ آیات سورہ اسراء کی آیات ۱۸ اور ۲۰ کی طرح ہیں جن میں فرمایا گیا ہے :
جو شخص دنیا کا طالب ہے جتنی مقدار ہم چاہتے ہیں اسے دے دیتے ہیں اور جو آخرت کو چاہتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ ایمان بھی رکھتا ہے تو اس کی سعی نتیجہ بخش ہوگی اور ہر گروہ کو تیرے پروردگار کی عطا و بخشش پہنچ کے رہیگی خلاصہ یہ کہ انسان وہ کچھ چا ہے گا۔
جو نکتہ یہاں باقی رہا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں دعا کو کسب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دعا کو کسب و اکتساب کہا جا سکتا ہے؟




۱۔مجمع البیان : آیت مذکورہ کے ذیل ہیں۔


 
درس یگانگی و اتحادحج رمز وحدت مسلمین جهان
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma