یہودیوں کے باطل خیالات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
مشکلات میں کامیابی کا راستہ : قرآن اور مسئلہ شفاعت

یہودیوں کے باطل خیالات ان آیات میں خدا نے دوبارہ روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف کیا ہے ۔ انہیں اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے : اے بنی اسرائیل ! جو نعمتیں میں نے تمہیں عطا کی ہیں ان کے بارے میں سوچو ( یا بنی اسرائیل اذکر وا نعمتی التی انعمت علیکم ) ان نعمتوں کا دامن بڑا وسیع ہے ۔ ہدایت و ایمان سے لے کر فرعونیوں کے چنگل سے رہائی اور عظمت و استقلال کے دو بارہ حصوں تک سب نعمتیںاس میں شامل ہیں ۔
پھر یہ نعمت بھی کہ انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں پر فضیلت حا صل کی جو در اصل مختلف نعمتوں کا مرکب ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :میں نے تمہیں جہانوں پر فضیلت عطا کی ( و انی فضلتکم علی العالمین
شاید بعض لوگوں کا احتمال ہو کہ ’فضلنکم علی العالمین ‘ کا مقصود یہ ہے کہ انہیں تمام جہانوں اور تمام ادوار میں برتری اور فضیلت دی گئی ہے لیکن قرآن کی دیگر آیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ان سر زمین اور ان کے زمانے کے لوگوں پر فضیلت و برتری مراد ہے کیونکہ قرآن میں ہے:
منتم خیر امة اخرجت للناس
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیے گیے ہو ۔ آل عمران ، ۱۱۰)
اس آیت کے مطابق پیامبر اسلام کی ا مت بہترین اور افضل ترین ہے ۔ ایک اور جگہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے:
و اورثنا القوم الذین کانو ا یستضعفون مشارق الارض و مغاربھا
بنی اسرائیل جو کمزور سمجھے جاتے تھے انہیں ہم نے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا ( اعراف ۔ ۱۳۷)
واضح ہے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل پوری دنیا کے وارث نہ تھے لہذا مقصود یہ ہے کہ اپنے علاقے میں مشرق و مغرب کے وارث ہوئے لہذا عالمین پر ان کی فضیلت بھی اسی علاقہ کے افراد کی مناسبت سے ہے ۔
اگلی آیت میں قرآن نے یہودیوں کے باطل خیالات پر خط بطلان کھینچا ہے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ ہمارے آباؤ اجداد چونکہ پیغمبر تھے لہذا وہ ہماری شفاعت کریں گے یا یہ گمان کرتے تھے کہ گناہوں کا معاوضہ ادا کریں گے جیسے اس دنیا کا طریق کار ہے ۔ قرآن کہتا ہے اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص دوسرے کی جگہ جزا نہیں پائے گا ( و اتقو ا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ) اور نہ ہی اذن پروردگار کے بغیر ) کوئی سفارش و شفاعت قبول ہوگی ( ولا یقبل منھا شفاعة ) نہ ہی تادان و بدل قبول ہوگا ( ولا یوخذ منھا عدل ) اور نہ ہی کوئی شخص ان کی مدد کے لئے کھڑا ہوگا ( و لا ھم ینصرون )۔ خلاصہ یہ کہ اس عدالت کا قاضی و حاکم وہ ہوگا جو پاک علم کے سوا کچھ قبول نہیں کرے گا ۔ سورہ شعراء آیت ۸۸اور ۸۹ میں ہے ۔
یوم لا ینفع مال و لا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم
وہ دن جب نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد ہاں مگر وہ لوگ جو قلب سلیم لے کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے ۔
در حقیقت زیر بحث آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس دنیا میں اس طرح معمول ہے کہ مجرم سزا سے نجات پانے کے لئے مختلف طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی ایک شخص دوسرے کا جرمانہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور اسے ادا کردیتا ہے کبھی سفارش کو وسیلہ بنایا جاتا ہے اور ایسے شخص کو تیار کیا جاتا ہے جو اس کے گناہ کے سلسلہ میں سفارش کریں اور اگر ایسا بھی نہ ہو سکے تو مجرم کوشش کرتا ہے کہ تادان ادا کر کے اپنے آپ کو سزا سے بچالے کچھ بھی نہ ہو سکے تو دوستوں کی مدد سے دفاع کے لئے تیار ہو جاتا ہے تاکہ سزا کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کر سکے ۔
دنیا میں سزا سے بچنے کے لئے یہ مختلف طریقہ ہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ عالم قیامت میں سزاؤں کے اصول دنیا سے بالکل مختلف ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی وہاں کار آمد نہیں ہوگی ۔
راہ نجات صرف یہ ہے کہ انسان تقوی کے سایہ میں پناہ لے اور پھر لطف ِ پروردگار ہے۔
بت پرستوں اور اہل کتاب میں سے کجرو لوگوں کے عقاید دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے خرافاتی عقاید ان کے درمیان کم نہیں تھے ۔مثلاََ تفسیر المنار کے مولف نقل کرتے ہیں :
مصر کے بعض علاقوں کے فضول لوگ میت کو غسل دینے والے کو کچھ رقم دیتے تھے اور اسے بہشت میں نقل و انتقال کی اجرت کہتے تھے۔۱
یہودیوں کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے کفارے کے لئے قربانی کرتے تھے اور اگر قربانی میسر نہ ہوتی تو کبوتروں کے ایک جوڑے کی قربانی کر دیتے تھے ۔۲
گذشتہ قوموں ( احتمالا َ ما قبل تاریخ کی ) کے حالات میں ہے کہ وہ زبور ، آلات اور میت کا اسلحہ اس کے ساتھ دفن کر دیتے تھے تاکہ وہ آیندہ زندگی میں ان سے فائدہ اٹھا سکے ۔۳


 
(1) ،(2) و ۲ المنار ،ج ۱ ،ص ۳۰۶۔
(۳)المیزان ،ج ۱، ص ۱۵۶

 

مشکلات میں کامیابی کا راستہ : قرآن اور مسئلہ شفاعت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma