طالوت کون تھے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ایک عبرت خیز واقعہ قیادت کی شرایط

طالوت ایک بلند قامت ،تنومند اور خوبصورت مرد تھے وہ مضبوط اور قوی اعصاب کے مالک تھے روحانی طور پر بھی بہت ہی زیرک اور دانشمند اور صاحب تدبّر تھے بعض لوگوں نے انکے نام طالوت کو بھی ان کے طولانی قد کا سبب قرار دیا ہے
ان تمام صفات کے با وجود مشہور نہیں تھے اپنی والد کے ساتھ دریا کے کنارے ایک بستی میں رہتے تھے والد کے چوپایوں کو چراتھے اور زراعت کرتے تھے
ایک دن کچھ جانور بیابان میں گم ہو گیے طالوت اپنے دوست کے ساتھ کیی دن تک انکی تلاش میں سر گرداں رہے انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ شہر صوف کے قریب پہنچ گیے
انکے دوست نے کہا ہم تو اشموئیل کے شہر صوف میں آپہنچے ہیں آیے انکے پاس چلتے ہیں شاید وحی کے سایہ میں اور انکی راے ٴ کی رو شنی میں ہمیں کچھ پتہ چل سکے
شہر میں داخل ہوے ٴ تو حضرت اشموئیل سے ملاقات ہو گیی جب اشموییٴل؛ اور طالوت نے ایک دوسرے کو دیکھا تو گویا دل مل گیے  اشموئیل نے اسی لمحہ طالوت کو پہچان لیا وہ جان گیے کہ یہ وہی نو جوان ہے جسے خدا نے ان لو گوں کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے
طالوت نے اپنی کہانی سنایی ٴ تو اشموئیل کہنے لگے وہ چو پاے تو تو اس وقت تمہاری بستی کی راہ پر ہیں اور تمہارے باپ کے باغ کی طرف جا رہے ہیں ان کے بارے میں فکر نہ کرو ․مین تمہیں اس سے کہیں بڑے کام کی دعوت دیتا ہوں  خدا نے تمہین بنی اسرائیل کی نجات کے لیے مامور کیا ہے
طالوت پہلے تو اس پرو گرام پر حیران ہوے ٴ اور پھر اسے سعادت سمجھتے ہو ے ٴ قبول کر لیا اشموییٴل نے اپنی قوم سے کہا
خدا نے ےالوت کو تمہاری قیادت سونپی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اب اپنے تئیں دشمن سے مقابلے کے لیے تیار کر لو
بنی اسرائیل کے نذدیک تو حسب ونسب اور ثروت کے حوالے سے کیی خصوصیات فرمانروا کے لیے ضروری تھیں اور انمیں سے کویی چیز بھی طالوت میں دکھایی نہ دیتی تھی اس انتخاب و تقرر پر وہ بہت حیران و پریشان ہو گیے ٴ انہوں نے دیکا کہ انکے عقیدہ کے بر خلاف وہ نہ تو لاوی کی اولاد میں سے تھے جن میں سے نبی ہوتے تھے نہ یوسف اور یہودا کے خاندان سے تھے جو گذشتہ زمانے مین حکومت کرتے تھے ب؛لکہ انکا تعلّق تو بنیامین کے گمنام خاندان سے تھا اور پھر وہ مالی طور پر بھی تہی دست تھے
انہوں نے اعتراض کیا وہ کیسے حکومت کر سکتا ہے جب کہ ہم اس سے زیادہ حقدار ہیں
اشموییٴل سمجھتے تھے کہ وہ بہت اشتباہ کر رہے ہیں کہنے لگے : انہیں خدا نے تم پر امیر مقرر کیا ہے نیز قیادت کے لیے ان کی اہلیت اور لیاقت کی دلیل یہ ہے کہ وہ جسمانی طور پر زیادہ طاقت ور ہیں اور روحانی طاقت میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اس لحاظ سے وہ تم میں سب پر برتری رکھتے ہیں
بنی اسراییٴل نے خدا کی طعف سے اسکے تقرر کے لیے
کسی علامت یا نشانی کا مطالبہ کر دیا اس پر اشموییٴل بولے انبیا ء بنی اسراییٴل کی ہم یاد گار تابوت (صندوق عہد)جو جنگ میں تمہارے لیے اطمینان اور ولولے کا باعث تھا تمہارے پاس لوٹ آے ٴگا اور اسے تمہارے آگے چند فرشتوں نے اٹھا رکھا ہوگا
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صندوق عہد انکے سامنے آگیا یہ نشانی دیکھ کر انہوں نے طالوت کی سر براہی قبول کر لی
طالوت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی
طالوت نے لشکر کی قیادت کا بیڑا اٹھایا ،انہوں نے تھوڑی ہی مدّت میں امور سلظنت کی انجام دہی اور فوج کی تنظیم نو کے سلسلے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔پھر آپ نے فوج کو دشمن سے مقابلے کی دعوت دی دشمن نے انکی ہر چیز کو خطرے سے دوچار کر رکھا تھا
طالوت نے تاکید کرتے ہوے ٴ کہا :میرے ساتھ وہ لوگ چلیں جسکی ساری توجہ جہاد پر مرکوز رہ سکے جنکی صھت ناقص ہو اور جو درمیان ہی میں ہی ہمّت ہار بیٹھنے والے ہوں اس جنگ میں شرکت نہ کریں بہت جلد ظاہراً ایک کثیر تعداد اور طاقتور فوج جمع ہو گئی اور وہ دشمن کی طرف چل پڑے سورج کی تپش تھی گرمی میں چلتے چلتے انہیں سخت پیاس لگ گییطالوت خدا کے حکم سے انہیں آزمانا چاہتے تھے اور انکی تطہیر بھی کرنا چاہتے تھے  انہون نے کہا :جلد تمہارے راستے میں ایک نہر آے ٴگی اسکے ذریعہ خدا تمہارا امتحان لے گا جو لوگ اسمیں سے سیر ہو کر پانی پیے نگے انکا مجھ سے کو یی تعلّق نہیں البتہ جو تھوڑا سا پانی پیے نگے وہ میرے ساتھی ہیں انکی نطر نہر پر پڑی تو بہت خوش ہوے ٴ  جلدی سے وہاں پہنچے اور خوب سیر ہو کر پانی پیا  تھوڑے سے فوجی اپنے عہد و پیمان پر قایم رہے
طالوت نے دیکھا کہ انکی فوج کی اکثریت بے ارادہ اور کمزور عہدو پیمان کی حامل ہے اور اسمیں تھوڑے سے صاحب ایان افراد موجود ہیں انہوں نے بے قاعدہ اور نا فرمان اکثریت کو چھوڑ دیا اور انہی کم تعداد صاحب ایمان کو ساتھ لیا اور شہر سے گزر کر میدان جہاد کی طرف پیش قدمی جاری رکھی طالوت ک فوج نے اپنی کم تعداد دیکھی تو پریشان اور وحشت زدہ ہویی ٴ فوجیوں نے ان سے کہا ہم میں تو اس طاقتور فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنکا دل خدا کی محبّت سے معمور تھا وہ دشمن کی فوجی قوت اور کثرت اور اپنی تھوڑی تعداد پر ہراساں نہ ہو ے ٴ اور کمال شجاعت سے طالوت سے کہنے لگے آپ جو مصلحت سمجھتے ہیں حکم دیجیے ٴ ہم ہر مقام پر آپ کا ساتھ دیں گے اور انشاء اللہ کم تعداد کے باوجود دشمن سے جہاد کریں گے کیو نکہ یہ تو کیی ٴ مرتبہ ہو چکا ہے کہ کم تعداد خدا کے ارادہ اور مشیّت کے سہارے کثیر تعداد پر غالب آ یی ٴ ہے اور خدا استقامت اور پا مردی دکھانے والوں کے ساتھ ہے طالوت ان کم تعداد اہل ایمان مجاہدین کے ساتھ آمادہٴ کار زار ہو ے ٴ  ان لوگوں نے درگاہ الٰہی سے شکیبایی ٴ اور کامیابی کی دعا کی
جنگ کی آگ بھڑک اٹھی جالوت اپنا لشکر لے کر باہر نکلا لشکروں کے مابین مبارز طلبی ہویی ٴ اسکی با رعب پکار نے دلوں کو لرزا دیا  میدان میں جانے کی جرئت کسی میں نہ رہی داوٴد ایک کم سن نو جوان تھا  شاید وہ جنگ کے لیے بھی میدان میں نہ آیا تھا بلکہ اپنے جنگجو بڑے بھاییٴون اور باپ کی خدمت کے ل؛یے چلا آیا تھا لیکن چا ک و چوبند اور قوی تھا خلدخن اسکے ہاتھ میں تھی اسکے ذریعہ اسنے دو پتھر ایسے ماہرانہ انداز میں پھینکے کہ ٹھیک جالوت کی پیشانی اور سر میں پیوست ہو گیے ٴ اسکے سپاہیوں پر وحشت اور تعجّب کا عالم طاری تھا وہ انکے درمیان گرا اور مر گیا جالوت کے قتل سے اسکی فوج میں عجیب خو ف و ہراس پیدا ہو گیا  جالوت کا لشکر بھاگ کھڑا ہوا اور بنی اسراییٴل کامیاب اور کامران ہو گے ٴ (۱)
الم تر الی ٰ الملاء من بنی اسرائیل
لغت میں ملاء اس چیز کو کہتے ہیں جس سے آنکھ بھر جاے ٴ اور دیکھنے والے کے تعجّب کو بر انگیختہ کر دے اس لیے زیادہ جمعیت کو جو ہم راے ٴ اور ہم عقیدہ ہو ملاء
کہتے ہیں نیز ہر قوم و ملّت کے بزرگو ں کو بھی ملاء کہتے ہیں کیونکہ وہ ایک خاص مقام اور منزلت کے حامل ہونے کی وجہ سے دیکھنے والے کی آنکھ کو بھر دیتے ہیں
جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے کہ یہ آیرت بنی اسراییٴل کی ایک بڑی جمعیت کی طرف اشارہ کرتی ہے ان لو گوں نے بیک آواز اپنے پیغمبر سے امیر و رہبر کا تقاضا کیا تاکہ اسکی قیادت میں جالوت کا مقابلہ کر سکیں جسنے انکی دینی اقتصادی اور اجتماعی حیثیت کو معرض خطر مین ڈال رکھا تھا یہ واقعہ حضرت موسیٰ کے بعد رونما ہوا
فی سبیل اللہ
بنی اسرائیل اس دشمن کے تجاوز اور زیادتی سے نجات چاہتے تھے جس نے انہیں انکی سر زمین سے نکال دیا تھا اسکے لیے وہ آمادہٴ جنگ تھے اسکے باوجود اس پرو گرام کو فی سبیل اللہ قرار دیا گیاتھا اس واضھ ہوتا ہے کہ انسانوں کی آزادی ، طلم کی سر کوبی اور تجاوز سے نجات کے لیے مدد گار ثابت ہو سکے وہ فی سبیل اللہ میں شمار ہوتی ہے
قال ھل عسیتم ان کتب علیکم القتال الا تقاتلو ا
ان کے پیغمبر چونکہ انکی سستی اور کاہلی سے واقف تھے اس لیے کہنے لگے ممکن جب تمہیں جہاد کا حکم دیا جاے ٴ تو تم عمل نہ کرو
قالو وما لنا الا نقاتل فی سبیل اللہ و قد اضرجنا من دیارنا و ابنایٴنا
وہ کہنے لگے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دشمن کے ساتھ جنگ سے روگردانی کریں  حالنکہ اسنے ہمیں ہمارے شہر سے باہر نکال دیا ہے اور ہمارے بچوں کو ہم سے جدا کر دیا ہے r اسی طرح ان سے پیمان ِ وفاداری لیا گیا لیکن خدا کا نام اسکا فرمان اپنے وجود اور استقلال کی حفاظت کا تقاضا اور اولادکی آزادی کی خواہش کو یی ٴ چیز بھی انہیں عہد شکنی سے نہ روک سکی اس لیے قرآن نے ساتھ ہی یہ فرامایا ہے :
فلماّکتب علیہم القتال تولو ّالا قلیلاًمنہم یعنی جب ان پر جہاد فرض ہوا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب لوگ روگرداں ہو گیے ٴ اور انکے قائد نے ایک قلیل سی گوفوج لیکر جنگ کے عظیم میدان میں شرکت کی
واللہ علیم با الظّالمین
خدا ان ظالموں کو جانتا ہے جنہوں نے اپنے آپ پر ،معاشرے پر آنے والی نسلوں پر اور اپنی اولاد پر ظلم کیا ہے انکے حسب حال سزا اب انکا نتظار کر رہی ہے
و قال لہم نبیہم ان ّاللہ قد بعث لکم طالوت ملکاً
اس آیت کے مطابق بنی اسراییٴل کے لشکر کی باد شاہی اور سر براہی کے لیے خدا تعالیٰ نے طالوت کو منتخب کیا تھا اور شاید بعث کا لفظ اسی طرف اشارہ ہو جو کچھ اس واقعہ کی تفسیل میں بیان کیا گیا ہے یعنی غیر متوقع صورت حال کی وجہ سے طالوت پیغمبر کی کجلس تک آ پہنچے
ضمنی طور پر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طالوت فقط لشکر کے کمانڈر ہی نہ تھے ملک کے حکمران بھی تھے
قالو ا انی یکون لہ الملک علینا و نحن احق بالملک منہ ولم یو ٴت سعة من المال
بنی اسراییٴل کی طرف سے یہ پہلی عہد شکنی ہے کہ انہون کہ اپنے پیغمبر کے سامنے طالوت کے انتخاب کے بارے میں اعتراض کیا  حالانکہ وہ تصریح کر چکے تھے کہ یہ چناوٴ خاد کی طرف سے ہے لیکن وہ خدا کے انتخاب پر اعراض کرنے سے بھی نہ چوکے اور کہنے لگے ہم اس سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ عالی نسبی اور فراوان دولت تو ہمارے پاس ہے جو حکمرانی دو لازمی شرطیں ہیں
جیسا کہ ہم اس واقعے کی تفصیل میں دیکھ چکے ہیں کہ طالوت بنی اسرائیل کے ایک گمنام قبیلہ سے تعّق رکھتے تھے اور مالی طور پر ایک عام زراعت پیشہ شخص سے زیادہ حیثیت نہ رکھے تھے


 
(۱)مجمع البیان ، تفسیر الدّر المنثور ،قصص قرآن سے اقتباس کی تلخیص

 

 

ایک عبرت خیز واقعہ قیادت کی شرایط
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma