جاد و کیاہے اور کس وقت سے ہے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
کوئی شخص اذن خدا کے بغیر کسی چیز پر قادر نہیں: جادو اسلام کی نظر میں

جادہ کسے کہتے ہیں اور یہ کس زمانے سے وجود میں آیاہے یہ ایک وسیع بحث ہے۔ اتنا کہاجاسکتاہے کہ جادو بہت قدیم زمانے سے لوگوں مین رائج ہے اس کی بالکل صحیح تاریخ دستیاب نہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کس شخص نے پہلی مرتبہ جادوگری کو وجودد یا تھا۔ لیکن سحر کے معنی اور اس کی حقیقت کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ جادو خارق عادت افعال کی ایک قسم ہے یہ اپنی طرف سے انسانی وجود میں کچھ آثار پیدا کرسکتاہے اور بعض اوقات آنکھوں کا دھوکا اور ہاتھ کی صفائی ہے اور صرف نفسیاتی و خیالی پہلو رکھتاہے۔ لغت میں سحر کے دو معانی مذکور ہیں:
۱۔ فریب، طلسم، شعبدہ اور ہاتھ کی صفائی۔ قاموس میں سحر کردن کا معنی لکھاہے دھوکادینا۔
۲۔ (کل ما لطف دق) یعنی وہ جس کے عوامل نظر نہ آتے ہوں اور پوشیدہ ہوں۔
مفردات راغب، جو قرآن کے مفرد الفاظ کے لئے مخصوص ہے، میں تین معانی کی طرف اشارہ ہوا ہے:
۱۔ فریب اور حقیقت و واقعیت کے بغیر خیالات جیسے شعبدہ بازی اور ہاتھ کی صفائی۔
۲۔ بعض نے ایک معنی اور بھی کیاہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے کچھ وسائل سے بعض اشخاص و موجودات کی ماہیت اور شکل بدل دینا، مثلا انسان کو جادو کے ذریعے حیوانی شکل میں تبدیل کردینا۔ لیکن یہ بات خواب و خیال سے زیادہ نہیں ہے اور اس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے۔
قرآن مین لفظ سحر اور اس کے مشتقات مختلف سورتوں مثلا طہ، شعراء یونس اعراف و غیرہ میں آئے ہیں اور یہ خدا کے پیغمبروں حضرت موسی حضرت عیسی اور پیغمبر اسلام کے حالات کے ضمن میں ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کی نظر میں سحر دو حصوں میں تقسیم ہوتاہے:
۱۔ وہ مقام جہاں سحر سے مقصود دھوکا، ہاتھ کی صفائی، شعبدہ بازی اور فریب نظر ہے اور کوئی حقیقت نہیں مثلا:( فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اٴَنَّہَا تَسْعَی)
یوں لگتا تھا جیسے ان (جادوگروں) کی رسیاں اور لاٹھیاں اس (موسی) کی طرف دوڑ رہی ہوں۔ (طہ، ۶۶)
ایک اور آیت یوں ہے:( فَلَمَّا اٴَلْقَوْا سَحَرُوا اٴَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیم)
جب انہوں نے رسیوں کو پھینکا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا انہیں خو ف زدہ کردیا۔ (اعراف۔۱۱۶)
ان آیات سے واضح ہوتاہے کہ جاد و کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور یہ نہیں کہ جادوگر چیزوں میں تصرف کرسکیں اور اپنا اثر باقی رکھ سکیں بلکہ یہ تو ان کے ہاتھ کی صفائی اور فریب نظرہے کہ لوگوں کو حقیقت کے برعکس دکھائی دیتاہے
(ب) قرآن کی بعض آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ سحر کی بعض اقسام واقعات اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلا زیر بحث آیت جس میں ہے کہ وہ جادو سیکھتے تھے تا کہ مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈالیں۔(فیتعلمون منہما ما یفرقون بہ بین المرء و زوجہ)۔
ایک اور بات جو مندرجہ بالا آیات میں تھی کہ وہ ایسی چیزیں سیکھتے جو ان کے لئے مضر ہوتیں اور نفع بخش نہ ہوتیں:(و یتعلمون ما یضرہم و لا ینفعہم)
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا جادو کی تاثیر نفسیاتی پہلو رکھتی ہے یا اس کا جسمانی اور خارجی اثر بھی ممکن ہے۔ زیر بحث آیات میں اس طرف کوئی اشارہ نہیں۔ اسی لئے بعض کا نظریہ ہے کہ جادو کا اپنا اثر صرف خیالی اور نفسیاتی لحاظ سے ہے۔
ایک اور نکتہ جس کا ذکر یہاں ضروری ہے یہ ہے کہ دیکھنے میں آتاہے کہ جادو کی تمام یا بعض قسمیں ایسی ہیں جن میں چیزوں کے کیمیائی اور طبیعائی خواص سے فائدہ اٹھا کر سادہ لوح عوام کو دھوکا دیاجاتاہے اور انہیں بیوقوف بنایاجاتاہے ۔ مثلا حضرت موسی کے زمانے کے جادو کی تاریخ میں ہے کہ جادو گر اپنی رسیوں اور چھڑیوں میں کسی مخصوص کیمیائی مواد (مثلا احتمال ہے کہ سیماب و غیرہ ہوگا) کا استعمال کیا کرتے تھے اور پھر یہ چیزیں سورج کی تپش یا کسی اور حرارت کے ذریعے حرکت میں آجاتی تھیں اور تماشائی سمجھتے تھے کہ وہ جاندار ہوگئی ہیں ایسا جادو ہمارے زمانے تک میں نایاب نہیں ہے۔
 

کوئی شخص اذن خدا کے بغیر کسی چیز پر قادر نہیں: جادو اسلام کی نظر میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma