شرک و بت پرستی کی سخت مذمت کی گئی تھی۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
بیزاری پیشوایان اصل حلیت:

شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی کو قانون ساز سمجھ لے اور نظام تشریع اور حلال و حرام اس کے اختیار میں قرار دیدے۔ محل بحث آیات میں ایسے عمل کو شیطانی فعل قرار دیاگیاہے۔ پہلے ارشاد ہوتاہے: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے اسے کھاؤ (یا ایہا الناس کلو مما فی الارض حللا طیبا
اور شیطان کے نقوش قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا واضح دشمن ہے (و لا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین
یہ امر قابل توجہ ہے کہ مختلف غذاؤں سے فائدہ اٹھانے سے مربوط آیات قرآن میں کئی مقام پر ہیں اور عموما ان میں دو قیود کا ذکر ہے حلال اور طیب۔ حلال وہ ہے جس سے روکا نہ گیا ہو اور طیب ان چیزوں کو کہتے ہیں جو پاک و پاکیزہ اور انسان کی طبع سلیم کے مطابق ہوں۔ طیب کے مد مقابل خبیث ہے جس سے مزاج انسانی نفرت کرتاہے۔
خطوات جمع ہے خطوہ (بر وزن (قربہ) کی ۔ اس کا معنی ہے قدم۔ خطوات الشیطان سے مراد وہ قدم ہیں جو شیطان اپنے مقصد تک پہنچنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اٹھاتاہے۔
(لا تتبعوا خطوات الشیطان) قرآن میں پانچ مقامات پر دکھائی دیتاہے۔ دو مقامات پرغذا اور خدائی رزق سے استفادہ کرنے کے ضمن میں ہے۔ در اصل انسانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حلال نعمتوں کو بے محل استعمال نہ کریں اور نعمات الہی کو خدا کی اطاعت و بندگی کا ذریعہ قراردیں نہ کہ طغیان سرکشی اور فساد کا۔
شیطان کے نقوش پاکی پیروی حقیقت میں وہی بات ہے جو دیگر آیات میں حلال غذاؤں سے استفادہ کرنے کہ حکم کے بعد ذکر ہوئی ہے۔ مثلا
کُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللهِ وَلاَتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِینَ
رزق الہی میں سے کھاؤ پیو مگر زمین میں فتنہ و فساد برپا نہ کرو۔ (بقرہ۔۶۰)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
کلوا من طیبت ما رزقنکم و لا تطغوا فیہ
وہ پاکیزہ رزق جو ہم نے تمہیں عطا کیاہے اس میں سے کھاؤ مگر اس میں طغیان و سرکشی نہ کرو۔
(طہ۔۸۱)
خلاصہ یہ کہ یہ عطیات اور اسباب اطاعت کے لئے تقویت بخش ہونے چاہئیں گناہ کا ذریعہ نہیں۔
”انہ لکم عدو مبین“قرآن حکیم میں دس سے زیادہ مرتبہ شیطان کے ذکر کے ساتھ آیاہے۔ یہ اس لئے ہے تا کہ انسان اس واضح دشمن کے مقابلے میں اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں یکجا کرے۔
شیطان جس کا مقصد انسان کی بدبختی اور شقاوت کے سوا کچھ نہیں اگلی آیت اس کی انسان سے شدیدترین دشمنی کو بیان کرتی ہے۔ فرمایا: وہ صرف تمہیں طرح طرح کی برائیوں اور قباحتوں کا حکم دیتاہے (انما یامرکم بالسوء و الفحشا)
نیز تمہیں آمادہ کرتاہے کہ خدا پر افتراء باند ھو اور جو چیز تم نہیں جانتے ہو اس کی خدا کی طرف نسبت دو (و ان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون
ان آیات سے ظاہر ہوا کہ شیطان کے پروگراموں کا خلاصہ یہی تین امور ہیں۔ برائیاں، قباحتیں اور ذات پروردگار سے بے بنیاد باتیں منسوب کرنا۔
(فحشا) کا مادہ ہے (فحش) جس کا مطلب ہر وہ چیز ہے جو حد اعتدال سے خارج ہوکر فاحش کی شکل اختیار کرلے اس لحاظ سے تمام منکرات اور واضح قباحتیں اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔
یہ جو آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ عفت و پاکدامنی کے منافی افعال کے لئے استعمال ہوتاہے یا ان گناہوں پر بولاجاتاہے جو حد شرعی رکھتے ہیں تو یہ لفظ کے کلی مفہوم کے بعض واضح مصادیق ہیں۔
ان تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون۔ ممکن ہے یہ ان حلال غذاؤں کی طرف اشارہ ہو جنہیں زمانہ جاہلیت کے عربوں نے حرام قرار دے رکھا تھا اور اس کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے بلکہ بعض بزرگ مفسرین کے بقول اس طرز فکر کی رسومات تازہ مسلمانوں کے بعض گروہوں میں بھی باقی رہ گئی تھیں۱
خدا کی طرف شریک شبیہ کی نسبت دینا اس آیت کا زیادہ وسیع معنی ہے اور یہ بھی آیت کے مفاہیم میں شامل ہے 
بہرحال یہ جملہ اس طر ف اشارہ ہے کہ ایسے امور کا مطلب علم کے بغیر بات کرناہے اور وہ بھی خدا کے مقابلے میں جب کہ یہ کام کسی منطق اور عقل و خرد کی روسے صحیح نہیں۔
اگر لوگ اصولی طور پر اس بات کے پابند ہوں کہ وہ وہی بات کریں گے جس کا کوئی قطعی اور یقینی مدرک ہے تو انسانی معاشرے سے بہت سی بدبختیاں اور تکالیف دور ہوسکتی ہیں در حقیقت خدائی مذاہب میں جو خرافات شامل ہوگئے ہیں وہ اسی طرح بے منطق افراد کے ذریعے ہوئے ہیں۔ بگڑے ہوئے اعتقادات اور اعمال اسی بنیادکو اہمیت نہ دینے کے وجہ سے ہیں لہذا خطوات شیطان کی مستقل عنوان کے تحت مندرجہ بالا آیت میں برائیوں اور قباحتوں کے ساتھ اس عمل کا بھی ذکر کیاگیاہے۔


 

۱ تفسیر المیزان، ج۱ ص۴۲۵

بیزاری پیشوایان اصل حلیت:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma