ہر مقام و محل پر اسلام مسائل کی واقعیت اور ان کی ہر پہلو کے جاچ و پڑتال کرتاہے۔ اس نے بے گناہوں کا خون بہانے کے مسئلے میں ہر طرح سے افراط و تفریط سے بالاتر ہو کر حق مطلب اداکیا ہے ۔ اس نے یہودیوں کے تحریف شدہ دین کی طرح صرف قصاص کا سہارا نہیں لیا اور نہ ہی ایسی عیسائیت کی طرح صرف عفو دیت کی راہ دکھائی ہے کیونکہ پہلا حکم انتقام جوئی کا باعث ہے اور دوسرا قاتلوں کی جرات کا سبب ہے۔
فرض کریں قاتل و مقتول ایک دوسرے کے بھائی ہوں یا ان میں دوستی و اجتماعی تعلقات رہے ہوں تو اس صورت میں قصاص پر مجبور کرنا اولیاء مقتول کے لئے ایک نئے زخم کا باعث ہوگا۔ خصوصا ایسے لوگ جو انسانی جذبات سے سرشار ہوں انہیں قصاص کرنا ایک اور سختی شمار ہوگا جب کہ اس حکم کو عفوودیت میں محدود و محصور کردینا بھی ظالموں کو مزید جری و بیباک بنانے کا باعث ہوگا۔
لہذا اسلام نے قصاص کو اصلی حکم قرار دیاہے اور اسے معتدل بنانے کے لئے اس کے ساتھ عفو کا ذکر بھی کردیاہے۔
زیادہ واضح الفاظ میں مقتول کے اولیاکو ان تین راستوں میں سے ایک اختیار کرنے کا حق ہے۔
۱۔ قصاص لے لیں۔
۲۔ خونبہا لئے بغیر معاف کردیں۔
۳۔ خونبہا لے کر معاف کردیں (البتہ اس صورت میں ضروری ہے کہ قاتل بھی راضی ہو)۔