عالمی و آشتی صرف ایمان کے سائے میں ممکن ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
یہ آیت ہجرت کی رات حضرت علی کی شان انتظار بیجاونا معقول

”سلم“ اور ”سلام“ لغت میں صلح و آشتی کے معنی میں ہے۔ یہ آیت تمام لوگوں کو امن و صلح کی دعوت دیتی ہے ۔ آیت کا روئے سخن چونکہ مومنین کی طرف ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ صلح و آسائش صرف ایمان کے سائے میں ممکن ہے۔ ایمان کے بغیر یعنی مادی قوانین کے بھر وسے پر دنیا سے جنگ و جدل اور پریشانی اور اضطراب کا ہرگز خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ایمان کی معنوی قوت کے ذریعے اس بات کا امکان ہے کہ انسان تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں بھائیوں کی طرح میں بیٹھیں اور عالمی حکومت تشکیل دیں اس طرح ہر دھرتی پر صلح و آشتی کے ٹھنڈے سائے ڈالے جاسکتے ہیں۔
واضح ہے کہ مادی امور مثلا زبان، نسل و دولت، جغرافیائی حدود اور طبقہ بندی سب کی سب جدائی اور پراگندگی کے سرچشمے ہیں۔ ان کے ذریعے حقیقی عالمی امن قائم نہیں ہوسکتا کیونکہ حقیقی امن تو قلوب انسانی میں کسی محکم رشتے کا محتاج ہے اور یہ محکم رشتہ اتصال صرف خدا پر ایمان کا نام ہے ۔ یہی رشتہ تمام اختلافات سے بلند و بالا ہے۔ اسی لیے امن و صلح ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے جیسا کہ خود وجود انسانی میں اور اس کی روح میں اطمینان اور آسودگی ایمان کے بغیر میسر نہیں آسکتی۔
” و لا تثبعوا خطوات الشیطان“
اسی سورہ کی آیہ ۶۷ میں اشارہ ہوچکاہے کہ کجرویاں اور شیطانی وسوسے تدریجی طور پر رونما ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قرآنی تعبیر کے مطابق شیطان کے ایک قدم کی پیروی ہے۔ یہاں بھی اسی حقیقت کا تکرار کیاگیاہے کہ انحراف حق ، دشمنی ، عداوت، نفاق، جنگ اور خوں ریزی، انسان کے مزاج میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے ہیں ۔ صاحب ایمان افراد کو پہلے سے بیدار رہنا چاہئیے تا کہ وہ ان برائیوں کا مقابلہ کرسکیں۔
عربوں کی ایک مشہور ضر ب المثل ہے۔
”ان بدو القتال اللطام“
”ایک تباہ کن جنگ کی ابتدا، ایک تھپڑسے ہوتی ہے۔“
”انہ لکم عدو مبین“
شیطان کی انسان سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ابتدائے آفرینش حضرت آدم علیہ السلام سے وہ انسان کی دشمنی کے لیے کمر بستہ ہے اور اس نے سوگند کھا رکھی ہے کہ وہ اس دشمنی کو اپنے حتمی نتیجے تک پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرے گا لیکن جیسا کہ اپنے مقام پر ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ تضاد اور عداوت با ایمان لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ بلکہ یہ ان کے تکامل و ارتقاء کے لیے ایک رمز ہے۔
”فان زللتم من بعد ما جائتکم البینات“
پروگرام ، راستہ اور مقصد سب واضح ہیں تو پھر لغزشوں اور شیطانی وسوسوں کی گنجائش ہونا چاہئیے لیکن اگر تم ان سب چیزوں کے با وصف راستے سے ہٹ جاؤ۔ کجروی اختیار کر لو تو مسلم ہے کہ اس میں تمہاری ہی کوتاہی ہے اور جان لو کہ خدا بھی عزیز (صاحب قدرت اور توانا) ہے اور کوئی شخص اس کی عدالت سے فرار اختیار نہیں کرسکتا اور وہ حکیم بھی ہے، خلاف عدالت کوئی حکم اور فیصلہ صادر نہیں کرتا۔
۲۱۰۔ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ اٴَنْ یَاٴْتِیَہُمْ اللهُ فِی ظُلَلٍ مِنْ الْغَمَامِ وَالْمَلاَئِکَةُ وَقُضِیَ الْاٴَمْرُ وَإِلَی اللهِ تُرْجَعُ الْاٴُمُورُ
ترجمہ
۲۱۰ کیا (شیطان کے پیروکار) یہ لوگ (ان تمام نشانیوں اور واضح پر وگراموں کے بعد) پھر بھی منتظر ہیں کہ خدا اور فرشتے بادل کے سائے میں ان کے پاس آئیں (اور انہیں نئے دلائل پیش کریں جب کہ یہ امر محال ہے) اور تمام چیزیں انجام پاچکی ہیں اور تمام معاملات کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔
 

یہ آیت ہجرت کی رات حضرت علی کی شان انتظار بیجاونا معقول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma